آیت 28
 

اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ﴿۲۸﴾

۲۸۔ کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟

تفسیر آیات

اگر یہ کائنات بے مقصد اور عبث وجود میں آئی ہے تو مؤمن اور مفسد، متقی اور فاجر میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔

اگر ان قدروں کو تسلیم کیا جائے اورنیکی بجا لانے والا، برائی کا ارتکاب کرنے والے کے برابر ہو جائے اور اصلاح کا داعی، مفسدوں کے مساوی ہو جائے تو کائنات کا پورا نظام عبث اور باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور انسان ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ یہ تصور بذات خود انسانیت کی توہین ہے۔۔

آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ یہ کام اﷲ سے صادر نہ ہو گا کہ صالح اور فسادی، متقی اور بدکار ایک جیسے ہوں۔ کیونکہ ہر عا قل سمجھ لیتا ہے کہ ایسا کرنا اپنی جگہ ایک قبیح عمل ہے۔ حتیٰ جو لوگ شریعت کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک بھی یہ قبیح ہے۔ اسے قبح عقلی کہتے ہیں۔ آیت کی صراحت یہ ہے کہ اﷲ اس قسم کے قبیح عمل کا ارتکاب نہیں کرتا۔۔ ایسا کرنا عدل کے خلاف ہے۔ اسی لیے ہم اپنے اصول عقائد میں اس بات کو شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اﷲ عادل ہے۔ شیعہ امامیہ نے عدل الٰہی کو اصول دین میں رکھا ہے۔

فضائل: حاکم حسکانی نے شواھد التنزیل میں تین طریقوں سے ابن عباس سے اور خود حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے:

یہ آیت، تین شخصیتوں جو مؤمن اور نیک عمل بجا لانے والی ہیں اور تین مشرکین جو مفسد اور فاجر ہیں، کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں تین، علی بن ابی طالب (علیہ السلام)، حمزۃ بن عبد المطلب اور عبیدۃ حارث بن عبد المطلب ہیں، جنہوں نے جنگ بدر کے دن جنگ لڑی۔ علی (علیہ السلام) نے ولید کو، حمزہ نے عتبہ کو اور عبیدہ نے شیبہ کو قتل کیا۔

یہی روایت ابن عساکر نے بیان کی ہے اور روح المعانی میں بھی ذیل آیت ہے۔


آیت 28