آیت 12
 

اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕؑ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی: مشرکین کا عقیدہ تھا:

اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ ﴿۳۷﴾ (۲۳ مومنون: ۳۷)

بس یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہمیں مرنا اور جینا ہے اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔

مشرکین اور اہل توحید کے درمیان بنیادی اختلاف حیات بعد الموت پر ہے۔ اسی لیے اسی سورہ میں معادپر مختلف دلائل دیے ہیں۔

۲۔ وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ: اور ہم لکھتے ہیں ان سب اعمال کو خواہ وہ اچھے ہوں یا برے جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

نَکۡتُبُ: ہم لکھتے ہیں کا مطلب اعمال کا ثبت ہونا ہے کہ عمل (انرجی) ایک مرتبہ وجود میں آنے کے بعد مٹتا نہیں ہے۔

مَا قَدَّمُوۡا: وہ اعمال جو اس نے اپنی زندگی میں انجام دیے ہیں:

وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ۔۔۔۔ (۵۹ حشر: ۱۸)

اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (روز قیامت) کے لیے کیا بھیجا ہے۔۔۔۔

وَ اٰثَارَہُمۡ: اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ اپنے دفتر قدرت میں ثبت کرتا ہے۔ وہ اعمال بعینہ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ اس سے مراد وہ صدقات جاریہ ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد جاری رہتے ہیں۔ جیسے حدیث میں آیا ہے:

من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شیئا و من سن سنۃ سیئۃ کان علیہ ورزھا و وزر من عمل بھا من بعدہ لا ینقص من اوزارہم شیئا۔ ثم تلا ھذہ الایۃ۔ ( صحیح مسلم۔ وسائل الشیعۃ باب اقامۃ السنن ۔الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔)

جو کسی اچھی روایت کو رواج دے تو اس کے لیے اسے رواج دینے کا ثواب ہے اور جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا اس سب کا ثواب ملے گا اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی کے بغیر اور کسی بری روایت کو رواج دے گا تو اسے رواج دینے کا وبال بھی اس کے سر پر ہو گا اور جو اس کے بعد اس بری روایت پر عمل کرے گا ان سب کا وبال بھی اس پر ہو گا بغیر اس کے کہ اس کے وبال میں کسی قسم کی کمی کی جائے۔

دوسری حدیث ہے:

اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث، علم ینتفع بہ، او ولد صالح یدعو لہ، او صدقۃ جاریۃ من بعدہ۔ ( صحیح مسلم۔ مستدرک الوسائل باب اقامۃ السنن )

ابن آدم جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے (اس کی فائل بند ہو جاتی ہے) سوائے تین چیزوں کے: علم چھوڑ جائے جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ نیک اولاد چھوڑ جائے جو اس کے لیے دعا کرتی رہے یا ایسا صدقہ چھوڑ جائے جو اس کے مرنے کے بعد جاری رہے۔

۳۔ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ: ہم نے ہر چیز کو امام مبین میں جمع کیا ہے۔ بعض کے نزدیک آیت کا موضوع حیات بعدالموت اور انسان کا عمل ہے۔ اس اعتبار سے سیاق آیت یہ بنتا ہے کہ امام مبین ، نامہ اعمال کی طرف اشارہ ہے۔ جیسے فرمایا:

وَ کُلُّ شَیۡءٍ فَعَلُوۡہُ فِی الزُّبُرِ وَ کُلُّ صَغِیۡرٍ وَّ کَبِیۡرٍ مُّسۡتَطَرٌ﴿۵۳﴾ (۵۴ قمر: ۵۲۔۵۳)

اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے سب نامہ اعمال میں درج ہے اور ہر چھوٹی اور بڑی بات (اس میں) لکھی ہوئی ہے۔

دوسری آیت میں فرمایا:

یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا۔۔۔۔ ( ۱۸ کہف: ۴۹ )

ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے۔

نامۂ اعمال کو امام اس لیے کہا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے اس کی پیروی کرنی پڑے گی۔ خواہ جنت جانے کا فیصلہ ہے یا جہنم جانے کا۔

دوسرے بعض مفسرین کے نزدیک امام مبین سے مراد لوح محفوظ ہے۔ لوح محفوظ کو کتاب مبین بھی کہتے ہیں:

وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۵۹﴾ (۶ انعام:۵۹)

کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو۔

وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶۱﴾ (۱۰ یونس۔ ۶۱)

اور زمین اور آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶﴾ (۱۱ ہود: ۶)

اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ اس کی جائے قرار کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے، سب کچھ روشن کتاب میں موجود ہے۔

وَ مَا مِنۡ غَآئِبَۃٍ فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۷۵﴾ ( ۲۷ نمل: ۷۵ )

اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔

اس موقف کے مطابق جس چیز میں سب چیزوں کو جمع کیا گیا ہے وہ لوح محفوظ ہے۔ لوح محفوظ کو امام اس لیے کہا ہے کہ مقدرات عالم اس کے تابع ہیں۔

شیخ طوسی ؒنے البیان ، طبرسی نے مجمع البیان ، کاشانی نے زبدۃ التفاسیر ، علامہ طباطبائی نے المیزان میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔

بعض مصادر میں متعدد روایات موجود ہیں کہ [امام مبین] حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات ہے۔

حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ ان سے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

انا واللّٰہ الامام المبین ابین الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ (سلیمان قندوزی حنفی ینابیع المودۃ طبع استنبول۔ ( بحارالانوار ۳۵: ۴۲۷۔ تفسیر قمی ذیل آیت)

قسم بخدا! میں امام مبین ہوں۔ حق کو باطل سے جدا کر کے بیان کرنے والا میں ہوں، جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وراثت میں لیا ہے۔

دوسری روایت معانی الاخبار میں ہے۔ ابو جارود نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے، آپؑ نے اپنے پدر بزرگوار سے، انہوں نے اپنے جد بزرگوار سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے:

انہ قال فی علی انہ الامام الذی احصی اللہ تبارک و تعالیٰ فیہ علم کل شیء۔ ( المیزان ذیل آیہ)

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: یہ وہ امام ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر چیز کا علم جمع کیا ہے۔

علامہ طباطبائی ان دونوں روایات کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں:

یہ دونوں احادیث اگر صحیح ہوں تو یہ آیت کی تفسیر نہیں ہیں بلکہ ان کا مضمون بطن قرآن و اشارات قرآن سے ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ ایک عبد خدا نے اگر وحدانیت کا اقرار کیا ہو اور وہ اللہ کی بندگی میں اخلاص کی منزل پر فائز ہوا ہو، اسے اللہ کتاب مبین کا علم عنایت کرے جب کہ وہ نبی کے بعد سید الموحدین ہو۔

بعض دیگر شیعہ مفسرین اسے تفسیر نہیں، تطبیق کہتے ہیں۔

آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

بعض شیعہ غالیوں کی یہ بات مجھے بتائی گئی کہ ان کے ہاں امام مبین سے مراد علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ ہیں اور ہر شے کا علم ان میں جمع کر دینا شاعر کے اس قول کے مطابق لیتے ہیں۔

لیس علی اللہ بمستنکر

ان یجمیع العالم فی واحد

اللہ کے لیے یہ بات کوئی انوکھی نہیں ہے کہ عالم کو ایک ہی ذات میں جمع کر دے۔

ان میں سے بعض تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ علی کرم اللہ وجہ کو لوح محفوظ کی طرح معلومات کا خزانہ بنایا ہے۔ اس بات میں کتاب جلیل کے بارے میں جو جہالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ سے عفو اور عافیت کا طالب ہوں اور ممکن ہے ان کی مراد وہی ہو جو اہل تصوف مراد لیتے ہیں کہ وہ اپنی اصطلاح میں انسان کامل کو کتاب مبین کہتے ہیں۔ اس سے جہالت کا معاملہ کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ امام علی کرم اللہ وجہ کے کمال کا تو صرف ناقص العقل اور بے دین ہی انکار کر سکتا ہے۔

آلوسی صاحب خود بھی جانتے ہیں ناقص العقل، بے دین لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ شیعہ اس مسئلے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟ یہ آپ کو معلوم ہو گیا اور جو لوگ تفسیر اور تطبیق میں فرق جانتےہیں ان کے لیے جواب ہو گیا۔

کسی شیعہ روایت میں نہیں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو لوح محفوظ کی طرح بنایا گیا ہے۔ لوح محفوظ خزانۂ علم الٰہی کی ایک تعبیر ہے جس کا کسی کے ساتھ مقابلہ قابل تصور نہیں ہے۔

حضرت علی علیہ السلام ہر اس علم کا خزانہ ہیں جس کی بشر کو احتیاج ہے۔ چنانچہ سب کا علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا اور علی علیہ السلام کا کسی کی طرف رجوع نہ کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ علی علیہ السلام وارث علم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اگر کوئی صوفی یہ دعویٰ کرے کہ اسے علم علی علیہ السلام کے سمندرمیں سے ایک قطرہ حاصل ہے اور وہ انسان کامل کہلائے اور امام مبین کا اطلاق اس پر درست بھی ہے تو آپ کی نظر میں جہالت کا معاملہ ہلکا ہو جاتا ہے۔ ہماری نظر میں اس سے جہالت کا معاملہ سنگین ہو جاتا ہے کہ قطرے کو امام مبین کہنا جہالت نہ ہو اور سمندر کو امام مبین کہنا جہالت ہو۔ مَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ دیکھیے مشہور صوفی مفسر العلامۃ اسماعیل حقی برسوی اپنی تفسیر روح البیان میں اس جگہ کیا لکھتے ہیں:

واعلم ان قلب الانسان الکامل امام مبین و لوح الہی فیہ انوار الملکوت منتقشۃ و اسرار الجبروت منطبعۃ۔

جان لے: انسانِ کامل کا قلب امام مبین اور لوح الٰہی ہے جس میں ملکوتی روشنیاں منقش ہوتی ہیں اور جبروتی اسرار ثبت ہوتے ہیں۔

اس عبارت سے پہلے وہ التاویلات النجمیۃ ہی کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں:

(وکل شیء) مما یتقربون الینا اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ ای اثبتنا آثارہ و انوارہ فی لوح محفوظ قلوب احبابنا۔

امام مبین میں جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال صالحہ کے آثار اور انوار کو ہمارے احباب کے دلوں کے لوح محفوظ میں ہم نے جمع کیا ہے۔

اس قسم کی عبارت پڑھنے کے بعد جہالت کا معاملہ جس قدر آپ کے لیے ہلکا ہو جاتا ہے اسی قدر ہمارے لیے سنگین تر ہو جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کے تمام اعمال خود اور اس پر مترتب ہونے والے آثار سب اللہ کے ہاں ثبت ہیں: وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ۔۔۔۔


آیت 12