انبیاء کی تعلیمات، مبلغ اور منکر کا انجام


وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ ۘ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ اور ان کے لیے بستی والوں کو مثال کے طور پر پیش کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے۔

اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ جب ہم نے ان کی طرف دو پیغمبر بھیجے تو انہوں نے دونوں کی تکذیب کی پھر ہم نے تیسرے سے (انہیں) تقویت بخشی تو انہوں نے کہا: ہم تو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

13۔ 14 اس واقعہ کو بیان کرنے کی غرض انبیاء اور سابقہ امتوں کی تاریخ اور منکرین کا انجام بتانا ہے۔ اس بستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شام کا شہر انطاکیہ ہے۔ لیکن جو روایات اس سلسلے میں مذکور ہیں وہ سیاق آیت کے مطابق نہیں ہیں۔

قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَکۡذِبُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ بستی والوں نے کہا: تم تو صرف ہم جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے، تم تو محض جھوٹ بولتے ہو۔

قَالُوۡا رَبُّنَا یَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ رسولوں نے کہا: ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف ہی بھیجے گئے ہیں۔

وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔

قَالُوۡۤا اِنَّا تَطَیَّرۡنَا بِکُمۡ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہُوۡا لَنَرۡجُمَنَّکُمۡ وَ لَیَمَسَّنَّکُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ رسولوں نے کہا: تمہاری بدشگونی خود تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ(بدشگونی) اس لیے ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟ بلکہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔

19۔ بدشگونی لوگوں کے توہمات کی پیدا کردہ ہے اور اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ مختلف اقوام میں بدشگونی کے توہمات مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔ مثلاً کوے کا کائیں کائیں کرنا عربوں میں جدائی کی علامت ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہی علامت وصال کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوا بولے تو مہمان آنے والا ہوتا ہے۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے: وَالطِّیَرَۃُ لَیْسَتْ بِحَقٍّ (شرح نہج البلاغۃ 19: 372) بدشگونی حق پر مبنی نہیں ہے۔

وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔

20۔ الدرالمنثور میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدیقین تین ہیں: حبیب نجار مومن آل یاسین، حزقیل مومن آل فرعون اور علی بن ابی طالب علیہ السلام جو ان سب سے افضل ہیں۔

بخاری نے اپنی تاریخ میں بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے۔ ان روایات کے مطابق جس شخص نے یہ منطقی استدلال کیا وہ حبیب نجار تھا۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اطاعت اس رہنما کی ہونی چاہیے جس میں دو باتیں ہوں: اول یہ کہ جس بات کی طرف وہ دعوت دے رہا ہے اس میں اس کا اپنا کوئی مادی مفاد نہ ہو۔ دوم یہ کہ خود ہدایت پر ہو۔ آیت 22 میں بتایا کہ عبادت اس کی ہونی چاہیے جس میں دو باتیں موجود ہوں: اول یہ کہ وہ خالق ہو، دوم یہ کہ اس کے حضور پلٹ کر جانا ہو۔

اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا یَسۡـَٔلُکُمۡ اَجۡرًا وَّ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ ان کی اتباع کرو جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں۔

وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور میں کیوں نہ اس ذات کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔

ءَاَتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً اِنۡ یُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّیۡ شَفَاعَتُہُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یُنۡقِذُوۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ کیا میں اس ذات کے علاوہ کسی کو معبود بناؤں؟ جب کہ اگر خدائے رحمن مجھے ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے تو ان کی شفاعت مجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے چھڑا سکتے ہیں۔

اِنِّیۡۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۴﴾

۲۴۔ تب تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔

اِنِّیۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّکُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِ ﴿ؕ۲۵﴾

۲۵۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں لہٰذا میری بات سن لو۔

قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اس سے کہدیا گیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا،

بِمَا غَفَرَ لِیۡ رَبِّیۡ وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔

26۔ 27 سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس مومن کو قتل کیا اور قتل ہوتے ہی فرشتوں نے اسے جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ بظاہر یہ عالم برزخ کی جنت ہے۔ جنت خلد میں تو قیامت کے بعد داخل ہو سکے گا۔

وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا کُنَّا مُنۡزِلِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہم کوئی لشکر اتارنے والے تھے۔