اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕؑ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔

12۔ ”آگے بھیجا ہے“ سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان اپنی زندگی میں بجا لاتا ہے اور آثار سے مراد وہ صدقات جاریہ ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔ مثلاً مسجد، مدرسہ اور شفاخانہ کی بنیاد ڈالنا یا کسی ایسے فساد کی بنیاد ڈالنا جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے۔ یعنی مرنے کے بعد ان کے ثواب و عذاب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ : قرآن میں اس کے کئی عنوان ہیں: مثلاً لوح محفوظ، ام الکتاب، الکتاب المبین، امام مبین۔ البتہ ان میں امام مبین کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انا و اللہ الامام المبین ابین الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللہ ﷺ (ینابیع المودۃ ط استنبول۔ بحار الانوار 35: 427، تفسیر قمی) قسم بخدا میں ہی امام مبین ہوں۔ حق کو باطل سے جدا کر کے بیان کرنے والا میں ہوں، جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے وراثت میں لیا ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں : حدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں یہ بطن و اشارات قرآن میں سے ہے، تفسیر نہیں ہے۔

میں کہتا ہوں: حدیث صحیح ہونے کی صورت میں یہ امام مبین کی تعبیر سے مربوط ہے کہ میں حق و باطل بیان کرنے والا امام ہوں۔ کُلَّ شَیۡءٍ سے مربوط نہیں ہے۔ اشتراک لفظی سے اشتباہ نہ ہو۔