آیت 18
 

قَالُوۡۤا اِنَّا تَطَیَّرۡنَا بِکُمۡ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہُوۡا لَنَرۡجُمَنَّکُمۡ وَ لَیَمَسَّنَّکُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ دین الٰہی سے دور رہنے والے حقائق سے بھی دور اور اوہام کی وادی میں سرگرداں رہتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی کسی رسول نے لوگوں کو اللہ کی طرف اور ان کے مصنوعی معبودوں کو ترک کرنے کی دعوت دی تو وہ اپنے اوہام کی دنیا کے مطابق اس وہم میں مبتلا ہوئے تھے کہ تمہاری وجہ سے ہمارے معبود ناراض ہو گئے اور آفت ہم پر اسی وجہ سے آ رہی ہے۔

واضح رہے اسلامی تعلیمات میں بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ صرف توہم پرستی ہے۔

حدیث رسولؐ ہے:

لاَ عَدْوَی وَلاَ طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا شُوْمَ۔۔۔۔ (الکافی ۸: ۱۹۶ حدیث ۳۰۴)

سرایت کرنے، بدشگونی اور شومی کی حقیقت نہیں ہے۔

دوسری حدیث میں ہے:

کَفَّارَۃُ الطِّیَرَۃِ التَّوَکُّلُ۔ (الکافی ۸: ۱۹۸ حدیث ۳۳۶)

بدشگونی کا کفارہ توکل ہے

۲۔ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہُوۡا لَنَرۡجُمَنَّکُمۡ: اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔ منکر کے پاس جب منطق نہیں ہوتی تو طاقت استعمال کرنے پر اتر آتا ہے۔


آیت 18