آیت 33
 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اے لوگو! اپنے رب (کے غضب) سے بچو اور اس دن کا خوف کرو جس دن نہ باپ اپنے بیٹے کے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے لہٰذا دنیا کی یہ زندگی تمہیں دھوکہ نہ دے اور دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ رکھے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ: گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی خالقیت، ربوبیت اور اعادہ حیات پر قدرت کے سلسلے میں دلائل و شواہد پیش کرنے کے بعد آخر میں تمام انسانوں کو چند باتوں کی طرف متوجہ فرمایا:

الف: اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ: اپنے رب کے عدل پر مبنی فیصلہ سے بچو۔ یہ فیصلہ غضب الٰہی اور ابدی عذاب پر مشتمل ہو گا۔

ب: وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا: اور قیامت کے اس دن سے ڈرو۔ جس میں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا حتیٰ باپ بیٹا میں سے کوئی ایک دوسرے کے کام نہیں آئے گا۔ اس دن صرف اپنا عمل کام آئے گا۔

ج: اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ: اللہ کی طرف سے وعدہ آخرت، مبنی برحق ہے۔ حساب، جنت اور جہنم کا وعدہ بھی مبنی برحق ہے۔ رب کی عدالت سے بچنے اور روز قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کے لیے دو دشمنوں کی نشاندہی فرمائی:

۲۔ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا: پہلا دشمن دنیوی زندگی کی رعنائیاں ہیں جو انسان کو دھوکہ دیتی ہیں کہ وہ اسی میں مگن رہتا ہے اور روز آخرت کو ایک حقیقت کے طور پر نہیں لیتا۔

۳۔ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ: دوسرا دشمن، دھوکے باز شیطان ہے۔ انسان کو دھوکہ دیتا ہے اور آخرت کو ایک واہمہ قرار دیتا ہے یا اس ابدی زندگی سے غافل کر دیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تقویٰ اور خوف قیامت، آخرت کے لے زاد راہ ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا ۔۔۔۔

۲۔ خواہشات دنیا اور شیطانی فریب کاری، انسان کو قیامت سے غافل کردیتی ہیں۔


آیت 33