وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ اعتدال پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں کا وہی انکار کرتا ہے جو بدعہد ناشکرا ہے۔

32۔ جب انسان کے دل و دماغ سے دنیاوی خواہشات کا پردہ ہٹ جاتا ہے اور انسان کو صرف اپنی فطرت کے ساتھ سرگوشی کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس وقت اس فطرت کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی سہارا نظر نہیں آتا، لیکن جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو کچھ تو اس درس کو یاد رکھتے ہیں اور کچھ لوگ پھر خواہشات کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں۔