آیت 32
 

وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ اعتدال پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں کا وہی انکار کرتا ہے جو بدعہد ناشکرا ہے۔

تشریح کلمات

خَتَّارٍ:

( خ ت ر ) اصل میں غدّار کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اس آیت کی تشریح سورہ عنکبوت آیت ۶۵ میں ہو چکی ہے کہ جب انسان کے دل و دماغ سے دنیاوی خواہشات کا پردہ ہٹ جاتا ہے اور انسان کو صرف اپنی فطرت کے ساتھ سرگوشی کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس وقت اس کی فطرت کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی سہارا نظر نہیں آتا۔

۲۔ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ: جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو راہ راست پر قائم رہتے ہیں۔ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ اعتدال پر قائم رہتے ہیں۔ خطرے اور امن دونوں حالتوں میں اپنی فطرت و ہدایت پر قائم رہتے ہیں۔

۳۔ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ: اور بدعہد، ناشکرے ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔ فطرت کی طرف سے ان آیات کو قبول کرنے اور فطرت کے ساتھ عہد کرنے کے بعد جب حالت امن آ جاتے ہیں تو یہ بد عہد ہو جاتے اور نجات کی نعمت کو فراموش کر دیتے ہیں۔

حدیث میں آیا ہے:

الایمان نصفان نصف فی الصبر و نصف فی الشکر ۔ (تحف العقول ص ۴۸)

ایمان کے دو حصے ہیں: ایک حصہ صبر اور ایک حصہ شکر میں ہے۔

اہم نکات

۱۔ کبھی اضطراری حالت میں فطرت کو اپنے خالق کی طرف رجوع کرنے کا موقع مل جاتا ہے: دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۔۔۔۔


آیت 32