آیات 18 - 19
 

فَاَصۡبَحَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسۡتَنۡصَرَہٗ بِالۡاَمۡسِ یَسۡتَصۡرِخُہٗ ؕ قَالَ لَہٗ مُوۡسٰۤی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔موسیٰ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ہوئے اور خطرہ بھانپنے کی حالت میں تھے، اچانک دیکھا کہ جس نے کل مدد مانگی تھی وہ آج پھر اس (موسیٰ) سے فریاد کر رہا ہے، موسیٰ نے اس سے کہا: تو یقینا صریح گمراہ شخص ہے۔

فَلَمَّاۤ اَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّبۡطِشَ بِالَّذِیۡ ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا ۙ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اَتُرِیۡدُ اَنۡ تَقۡتُلَنِیۡ کَمَا قَتَلۡتَ نَفۡسًۢا بِالۡاَمۡسِ ٭ۖ اِنۡ تُرِیۡدُ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ جَبَّارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا تُرِیۡدُ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡمُصۡلِحِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ جب موسیٰ نے اس شخص پر ہاتھ ڈالنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا: اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی اسی طرح قتل کر دینا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا؟ کیا تم زمین میں جابر بننا چاہتے ہو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے؟

تفسیر آیات

۱۔ فَاَصۡبَحَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ خَآئِفًا: پھر وہ شہر میں ڈرتے ہوئے خطرہ بھانپنے کی حالت میں ہو گئے۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قصر فرعون میں نہیں ہیں۔ کل کا قتل غیر معمولی تھا۔ اپنی غلام قوم اسرائیل کے ہاتھوں قبطی کا قتل۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک بہت بڑے خطرے میں گھرے ہوئے ہیں اور یَّتَرَقَّبُ سے معلوم ہوتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں کہ اگلے لمحوں میں ان کے خلاف کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

۲۔ فَاِذَا الَّذِی اسۡتَنۡصَرَہٗ بِالۡاَمۡسِ: اتنے میں کل جس نے مدد مانگی تھی آج وہ پھر موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کر رہا ہے۔ وہ شخص کسی اور سے دست بہ گریباں ہے اور موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔

۳۔ قَالَ لَہٗ مُوۡسٰۤی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیۡنٌ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص سے کہا: تم بڑے فسادی ہو۔ ایسے لوگوں سے لڑتے ہو جس کا نتیجہ ظلم اور زیادتی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ غوی گمراہ ہونے اور فساد کرنے کو کہتے ہیں۔

۴۔ فَلَمَّاۤ اَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّبۡطِشَ: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قبطی پر حملہ کرنا چاہا۔ یہ قبطی ان دونوں اسرائیلیوں کا دشمن تھا اور اسرائیلی کو اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فسادی کہا لیکن وہ تھا تو مظلوم۔ اس وجہ سے اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھنا ایک فطری امر تھا۔

۵۔ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اَتُرِیۡدُ اَنۡ تَقۡتُلَنِیۡ: اس قبطی نے کہا: اے موسیٰ! کیا تم مجھے اسی طرح قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح کل ایک شخص کو قتل کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے گزشتہ روز کے قتل کی خبر شہر میں پھیل گئی تھی اور یہ بات کرنے والا اسرائیلی نہیں ہو سکتا جیسا کہ توریت کا خیال ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسرائیلی پر نہیں، قبطی پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور قبطی ہی عَدُوٌّ لَّہُمَا ان دونوں (موسیٰ علیہ السلام اور اسرائیلی) کا دشمن تھا۔ اسرائیلی تو صرف قبطی کا دشمن تھا، دونوں کا دشمن نہیں تھا۔

۶۔ اِنۡ تُرِیۡدُ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ جَبَّارًا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قبطی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت تھی اور لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو داعی اصلاح کے طور پر جانتے تھے۔ ممکن ہے اس لیے کہا ہو: اے موسیٰ! تم اصلاح کے داعی نہیں، جابر اور زیادتی کرنے والے ہو۔


آیات 18 - 19