موسی مدین میں


وَ دَخَلَ الۡمَدِیۡنَۃَ عَلٰی حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ اَہۡلِہَا فَوَجَدَ فِیۡہَا رَجُلَیۡنِ یَقۡتَتِلٰنِ ٭۫ ہٰذَا مِنۡ شِیۡعَتِہٖ وَ ہٰذَا مِنۡ عَدُوِّہٖ ۚ فَاسۡتَغَاثَہُ الَّذِیۡ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ عَلَی الَّذِیۡ مِنۡ عَدُوِّہٖ ۙ فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ ٭۫ قَالَ ہٰذَا مِنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور موسیٰ شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب شہر والے بے خبر تھے، پس وہاں دو آدمیوں کو لڑتے پایا، ایک ان کی قوم میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا تو جو ان کی قوم میں سے تھا اس نے اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا تو موسیٰ نے اس (دوسرے) کو گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا، پھر موسیٰ نے کہا: یہ تو شیطان کا کام ہو گیا، بے شک وہ صریح گمراہ کن دشمن ہے۔

15۔ فرعون کا قصر لب دریا شہر سے فاصلے پر تھا۔ وہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر میں داخل ہوئے۔ حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ جب شہر کے لوگ گھروں میں تھے۔ صبح یا رات کا وقت ہونے کی وجہ سے وہ گھروں سے باہر کے حالات سے باخبر نہ تھے۔ دیکھا دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شیعہ تھا، دوسرا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دشمن۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو گھونسا مارا۔ گھونسے سے عام حالات میں آدمی نہیں مرتا، لیکن قبطی ایک گھونسے سے مر گیا۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ بنا بر ایں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو عمداً نہیں مارا جیسا کہ بائیبل کہتی ہے۔ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ یعنی یہ لڑائی شیطان کا کام تھا، جس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مداخلت کرنا پڑی اور قبطی کے قتل کی نوبت آئی۔ یہ قتل غیر مناسب وقت میں واقع ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک آزمائش ہو گئی اور منشأ خداوندی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس آزمائشی مرحلے سے گزرنا تھا۔