آیت 14
 

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسۡتَوٰۤی اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور جب موسیٰ رشد کو پہنچ کر تنومند ہو گئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

تشریح کلمات

اَشُدَّہٗ:

( ش د د ) سوجھ بوجھ کی عمر کو پہنچنا اشد ہے۔ عقل و ہوشمندی کی عمر کو پہنچا۔ استوی بدنی اعتبار سے مضبوط ہونا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام عقل و ہوشمندی کی عمر کو پہنچ گئے۔ عمر کے اس حصے میں داخل ہونا جس میں انسان رشد عقل کو پہنچ جایا کرتا ہے انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی ضروری ہے۔ البتہ یہ مسئلہ اس نبی سے مربوط ہے کہ وہ کس قسم کے معاشرے کی طرف مبعوث ہو رہا ہے ورنہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لیے ارشاد ہوا۔ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ۔ (۹۱ مریم: ۱۲) اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گہوارے میں نبوت کے درجہ پر فائز ہونے کا اعلان کیا۔

۲۔ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا: ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو حکمت اور علم عطا کیا۔ پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ حکمۃ واقع بینی اور صائب نظری کو کہتے ہیں۔ حکمت کے مقابلے میں خطا اور غلطی آتی ہے۔ انسان کوئی کام حکمت و صواب کے مطابق انجام دے رہا ہوتا ہے تو غلطی و اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو واقع بینی کی صلاحیت دے دی۔ اس صلاحیت کے آنے پر علم عنایت فرمایا۔

۴۔ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نیکی کی اس منزل پر فائز ہو گئے جہاں سے وہ حکمت و علم کے اہل ٹھہرے۔ یہ بات ہر اس ہستی کے لیے ہے جو نیکی کی اس منزل پر فائز ہے۔

۱۔ واضح رہے حکمت و علم سے مراد نبوت نہیں ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام ابھی مبعوث نہیں ہوئے۔

۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے قصر میں ہوتی رہی۔شرک و کفر طغیانی و ستم کے مرکز میں پرورش پائی اس کے باوجود اس ماحول نے آپ ؑکی شخصیت، آپ کے افکار پر کوئی اثر نہیں کیا بلکہ آپؑ کے وجود میں صرف اور صرف الٰہی اقدار جا گزیں ہوئیں۔

اہم نکات

۱۔ منصب الٰہی کے لیے کمال عقلی و قوت جسمانی دونوں ضروری ہیں۔

۲۔ حکمت کا سینہ علم کا خزانہ ہوتا ہے۔


آیت 14