اِنِّیۡ جَزَیۡتُہُمُ الۡیَوۡمَ بِمَا صَبَرُوۡۤا ۙ اَنَّہُمۡ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی لوگ کامیاب ہیں۔

قٰلَ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِیۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اللہ پوچھے گا: تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟

112۔ فِی الۡاَرۡضِ : زمین میں۔ کیا اس سے مراد روئے زمین کی زندگی ہے یا زیر زمین برزخ کی زندگی۔ دو نظریے ہیں۔ میرے نزدیک روئے زمین کی زندگی زیادہ قرین قیاس ہے۔ چونکہ برزخ کی زندگی عذاب کی زندگی ہو گی، وہ ان کے لیے تھوڑی نہ ہو گی اور عذاب کی زندگی کے بارے میں سوال نہ ہو گا، بلکہ جرائم کی زندگی کے بارے میں سوال ہو گا۔

قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ وہ کہیں گے: ایک روز یا روز کا ایک حصہ (ہم وہاں) ٹھہرے ہیں، پس شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے۔

قٰلَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا لَّوۡ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ فرمایا: تم وہاں تھوڑا ہی (عرصہ) ٹھہرے ہو، کاش کہ تم (اس وقت) جانتے ۔

114۔ دنیا میں ہادیان برحق تم سے کہتے رہے کہ یہ دنیا ایک عارضی منزل، بلکہ ایک گزر گاہ ہے۔ اس عارضی منزل سے اپنی دائمی منزل کے لیے فائدہ اٹھاؤ۔ اس صورت میں دنیاوی زندگی بہت اہم اور قیمتی بن جاتی ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جس سے صالحین نے اللہ کے نزدیک اپنا مقام بنایا، مرتبے حاصل کیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دنیا قرب الٰہی اور حیات اخروی کے لیے ذریعہ اور زینہ بن جائے تو نہ صرف اس کی مذمت نہیں ہے، بلکہ اس کی فضیلت ہے۔ یہاں دانائے راز مولائے متقیان علی علیہ السلام سے روایت ہے: یہ دنیا اس شخض کے لیے سچائی کا گھر ہے جو اس کو راست گو سمجھے۔ عافیت کا گھر ہے جو اس دنیا کو سمجھے۔ توانگری کا گھر ہے جو یہاں سے زاد راہ حاصل کرے، نصیحت کا گھر ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔ یہ دنیا اللہ کے دوستوں کی مسجد، اللہ کے فرشتوں کی عبادت گاہ، اللہ کی۔وحی اترنے کی جگہ اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے، جس سے ان حضرات نے رحمت کی کمائی کی اور جنت کا منافع حاصل کیا۔ (نہج البلاغۃ) اس دنیاوی زندگی کی مذمت اس وقت ہوتی ہے جب یہ خود مقصد بن جائے۔ بالکل پانی اور کشتی کی طرح کہ پانی اگر کشتی کے نیچے رہے تو پار کرنے کے لیے بہترین ذریعہ ہے اور یہی پانی اگر کشتی کے اندر آ جائے تو کشتی کو غرق کر دیتا ہے۔

اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟

115۔ جیسا کہ آج کا مادی انسان یہی نظریہ رکھتا ہے کہ یہ انسان ایک لایعنی وجود اور نیچر (nature) کے ہاتھوں ایک کھلونا ہے۔ وہ اسے بلاوجہ دکھ درد دیتی اور مصائب میں مبتلا رکھتی ہے اور نتیجہ لاحاصل۔

اس کے مقابلے میں آخرت پر ایمان رکھنے والا اس زندگی کو عبث اور نیچر (nature) کے ہاتھوں کھلونا تصور نہیں کرتا۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ اس طرح رجوع الی اللّٰہ کا تصور انسانی زندگی کو مقصدیت سے ہمکنار کرتا ہے۔

فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ پس بلند و برتر ہے اللہ جو بادشاہ حقیقی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا رب ہے۔

وَ مَنۡ یَّدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرۡہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے اور کافر یقینا فلاح نہیں پا سکتے۔

وَ قُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿٪۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اور کہدیجئے: اے میرے رب! معاف فرما اور رحم فرما اور تو سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔