انسانی زندگی پر نظرئے کا اثر


اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟

115۔ جیسا کہ آج کا مادی انسان یہی نظریہ رکھتا ہے کہ یہ انسان ایک لایعنی وجود اور نیچر (nature) کے ہاتھوں ایک کھلونا ہے۔ وہ اسے بلاوجہ دکھ درد دیتی اور مصائب میں مبتلا رکھتی ہے اور نتیجہ لاحاصل۔

اس کے مقابلے میں آخرت پر ایمان رکھنے والا اس زندگی کو عبث اور نیچر (nature) کے ہاتھوں کھلونا تصور نہیں کرتا۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ اس طرح رجوع الی اللّٰہ کا تصور انسانی زندگی کو مقصدیت سے ہمکنار کرتا ہے۔