آیات 112 - 114
 

قٰلَ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِیۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اللہ پوچھے گا: تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟

قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ وہ کہیں گے: ایک روز یا روز کا ایک حصہ (ہم وہاں) ٹھہرے ہیں، پس شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے۔

قٰلَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا لَّوۡ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ فرمایا: تم وہاں تھوڑا ہی (عرصہ) ٹھہرے ہو، کاش کہ تم (اس وقت) جانتے ۔

تفسیر آیات

۱۔ قٰلَ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ: یہ سوال قیامت کے دن ان مشرکین سے ہو گا کہ تم نے اس زمین میں کتنی مدت زندگی گزاری؟ فِی الۡاَرۡضِ قرینہ بنتا ہے کہ سوال دنیا کی زندگی سے متعلق ہے۔ اگرچہ مجمع البیان اور المیزان کا موقف یہ ہے کہ سوال قبر میں رہنے کی مدت کے بارے میں ہے لیکن دیگر آیات کے شواہد کی بنا پر یہ سوال دنیا کی زندگی کے بارے میں ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ سورہ طٰہ آیت ۱۰۴ میں آیا ہے:

اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا

جب ان میں سے زیادہ صائب الرائے کا یہ کہنا ہو گا کہ تم تو صرف ایک دن رہے ہو۔

پھر یہاں آخرت کی جزا کی زندگی کا دنیا کی امتحان کی زندگی کے ساتھ موازنہ ہوتا ہے۔ قبر کی مدت کو تو مَا لَبِثُوۡا غَیۡرَ سَاعَۃٍ (۳۰ روم: ۵۵) ایک گھڑی سے تعبیر کیا ہے۔

۲۔ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ: اعمال عباد پر نظر رکھنے والے فرشتے ہی مراد ہو سکتے ہیں۔

۳۔ قٰلَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا: یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ آخرت کی اس ابدی زندگی کے مقابلے میں تمہاری دنیاوی زندگی قلیل ہی ہے۔

اہم نکات

۱۔ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کے مقابلے میں دنیوی زندگی ایک دن ہی شمار ہو گی۔


آیات 112 - 114