آیت 18
 

بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ فَیَدۡمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ؕ وَ لَکُمُ الۡوَیۡلُ مِمَّا تَصِفُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر کچل دیتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے اور تم پر تباہی ہو ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔

تشریح کلمات

نَقۡذِفُ:

( ق ذ ف ) القذف کے معنی دور پھینکنے کے ہیں۔

الدمغ:

( د م غ ) کے اصل معنی دماغ پھوڑ دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

یہ کائنات لغو اور بے مقصد نہیں ہے بلکہ واقعیت پر مشتمل مقصد کی طرف رواں دواں ہے۔ وہ واقعیت اور حق اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کائنات اپنے کمال کی طرف رواں دواں ہے اور اس کا منتہائے مقصد لقائے رب ہے۔

۱۔ بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ: کائنات لغو نہیں ہے، ایک حق پر مبنی ہے۔ حق اسے کہتے ہیں جو ثبات رکھتا ہو اور جو ثبات نہیں رکھتا وہ باطل ہے۔ مثلاً آپ کی بات امر واقع کے مطابق ہو تو اس واقع کو حق اور آپ کی بات کو سچ کہتے ہیں اور اگر آپ کی بات واقع کے مطابق نہیں ہے تو آپ کی بات کو جھوٹ اور غیر واقع کو باطل کہتے ہیں۔ لہٰذا حق اور باطل، وجود و عدم کی طرح ہیں۔ تاہم بہت سے لوگوں کے لیے یہ عدم ظاہر نہیں ہوتا۔ وہ اسے وجود سمجھتے ہیں۔ حق اپنی طاقت سے اس موہوم چیز کو وہم سے بھی مٹا دیتا ہے۔

۲۔ وَ لَکُمُ الۡوَیۡلُ: جو لوگ حق کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کے لیے ایک تہدید ہے کہ ان کا مقدر تباہی ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ حق واقع ہے اور باطل عدم ہے۔

۲۔ حق ایک طاقت ہے اور باطل موہوم ہے۔ موہوم چیز کا قدرتی انجام مٹ جانا ہے۔


آیت 18