آیات 19 - 20
 

وَ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ لَا یَسۡتَحۡسِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ اور آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوقات اسی کی ہیں اور جو اس کے پاس ہیں وہ اللہ کی عبادت سے نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں۔

یُسَبِّحُوۡنَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ لَا یَفۡتُرُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ وہ شب و روز تسبیح کرتے ہیں، تساہل نہیں برتتے۔

تشریح کلمات

یَسۡتَحۡسِرُوۡنَ:

( ح س ر ) الحسر کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے کے ہیں۔ تھکنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اونٹنی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَہٗ: کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مملکت سے بھاگ جائے یا اس کی نظر سے چھپ جائے۔ سب کو اللہ کے پاس حاضر ہونا اور حساب دینا ہے۔

۲۔ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ: جو اللہ کے پاس ہوتے ہیں وہ نہ عبادت سے تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں۔ عِنۡدَہٗ سے مراد مقربین لیے گئے ہیں۔ جو مقرب درگاہ ہیں، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء، اوصیاء اور صلحاء، وہ ذوق عبادت رکھتے اور سرّ عبودیت سے آشنا ہوتے ہیں۔ وہ عبادت سے تکبر کیا بلکہ وہ اسے اپنے لیے معراج سمجھتے ہیں اور اکتانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس سے کیف و سرور حاصل کرتے ہیں۔ بندگی کی لذت تو تمام لذتوں سے زیادہ لذیز ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرب الٰہی کی علامت عبادت کا ذوق رکھنا ہے۔

۲۔ جو ذوق عبادت رکھتے ہیں وہ عبادت سے اکتاتے نہیں ہیں۔


آیات 19 - 20