آیات 16 - 17
 

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔

لَوۡ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نَّتَّخِذَ لَہۡوًا لَّاتَّخَذۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّاۤ ٭ۖ اِنۡ کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اگر ہم کھیل کا ارادہ کرتے تو ہم اسے اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے (تو تمہیں خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی)۔

تشریح کلمات

لٰعِبِیۡنَ:

( ل ع ب ) اس منظم فعل کو کہتے ہیں جس کا مقصد غیر واقعی، خیالی ہوتا ہے۔ چنانچہ کھیلوں میں فتح و شکست خیالی ہے جسے کھیلنے والوں نے آپس میں ایک قرارداد کے ذریعے مقرر کیا ہے۔ اس قراداد کو بدلنے سے فتح و شکست کا معیار بدل جاتا ہے۔ ورنہ واقعی فتح و شکست کسی قرارداد سے نہیں واقع سے مربوط ہوتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ: آسمان اور زمین کو اللہ تعالیٰ نے ایک واقعی مقصد کے لیے بنایا ہے۔ اس واقع اور حقیقت کے تحت ہر ایک کو بروز حساب اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔

۲۔ لَوۡ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نَّتَّخِذَ لَہۡوًا: اگر ہم کسی قسم کا کھیل اور لہو و لعب کرنا چاہتے تو اس کام کے لیے کسی تخلیق کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ یہ کام اپنے پاس سے کر لیتے۔

۳۔ مِنۡ لَّدُنَّاۤ: کے معنی میں بعض نے کہا ہے: من انفسنا ۔ یہ کام مرحلہ ذات سے لیتے۔ مرحلہ خلق کی نوبت نہ آتی۔بعض دیگر مفسرین نے فرمایا ہے: مِنۡ لَّدُنَّاۤ یعنی من اہل السماء لا من اہل الارض ۔ یہ قول قابل قبول نہیں ہے چونکہ آیت میں آسمان کو بھی عدم لغو میں شامل فرمایا ہے۔ اسی طرح مِنۡ لَّدُنَّاۤ سے مراد مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ بھی درست نہیں ہے۔ مگر لدنا سے ذات مراد لینا بھی بعید معلوم ہوتا ہے لہٰذا ممکن ہے مراد یہ ہو کہ اگر ہم نے لغو کرنا ہوتا تو عالم خلق کے ذریعے ایسا کرنا ضروری نہ تھا بلکہ تخلیق کے علاوہ دیگر عالموں سے، جو ہمارے پاس موجود ہیں، یہ کام لیتے چونکہ اللہ کے پاس جو متصور ہے وہ اس موجودہ کائنات میں منحصر نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات ایک مقصد کی طرف رواں دواں ہے۔


آیات 16 - 17