آیات 11 - 15
 

وَ کَمۡ قَصَمۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ کَانَتۡ ظَالِمَۃً وَّ اَنۡشَاۡنَا بَعۡدَہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور ہم نے کتنی ظالم بستیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری قوم کو پیدا کیا۔

فَلَمَّاۤ اَحَسُّوۡا بَاۡسَنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنۡہَا یَرۡکُضُوۡنَ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ پس جب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا تب وہ وہاں سے بھاگنے لگے۔

لَا تَرۡکُضُوۡا وَ ارۡجِعُوۡۤا اِلٰی مَاۤ اُتۡرِفۡتُمۡ فِیۡہِ وَ مَسٰکِنِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ بھاگو نہیں، اپنی عیش پرستی میں اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، شاید تم سے پوچھا جائے۔

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کہنے لگے: ہائے ہماری تباہی! بے شک ہم لوگ ظالم تھے۔

فَمَا زَالَتۡ تِّلۡکَ دَعۡوٰىہُمۡ حَتّٰی جَعَلۡنٰہُمۡ حَصِیۡدًا خٰمِدِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور وہ فریاد کر رہے ہیں یہاں تک کہ ہم نے انہیں (جڑوں سے) کاٹ کر خاموش کر دیا۔

تشریح کلمات

قَصَمۡنَا:

( ق ص م ) القصم کے معنی ہلاک کرنے اور کسی چیز کو توڑ دینے کے ہیں۔

یَرۡکُضُوۡنَ:

( ر ک ض ) رکض کے اصل معنی ٹانگ کو حرکت دینے کے ہیں۔ اسی سے دوڑنے اور بھاگنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

اُتۡرِفۡتُمۡ:

( ت ر ف ) الترفۃ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کوکہتے ہیں۔

حَصِیۡدًا:

( ح ص د ) الحصد و الحصاد کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں۔

خٰمِدِیۡنَ:

( خ م د ) خمدت النار آگ کے شعلوں کا ساکن ہونا۔ استعارۃ بمعنی موت بھی آجاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ کَمۡ قَصَمۡنَا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت غیض و غضب کا اظہار ہے کیونکہ قصم کی تعبیر (درہم برہم) میں زیادہ شدت ہے۔ یہ غضب ایسی بستی پر آیا جو ظلم و زیادتی میں ملوث تھی۔ یہ کفر اور شرک کا ظلم ہو سکتا ہے: اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ۔ (۳۱ لقمان: ۱۳ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے)

۲۔ وَّ اَنۡشَاۡنَا بَعۡدَہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ: قرآن میں متعدد مقامات پر اس مطلب کو بیان فرمایا کہ کوئی قوم اگر نافرمانی پر اڑ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نابود کر کے اس کی جگہ دوسری قوم پیدا کرتا ہے۔

۳۔ فَلَمَّاۤ اَحَسُّوۡا بَاۡسَنَاۤ: اس بستی کے لوگوں نے دیکھا کہ عذاب سر پر آگیا ہے تو اس سے بچنے یعنی فرار ہونے کی کوشش کی حالانکہ اللہ سے فرار نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی مملکت کو چھوڑ کر کہیں اور جایاجا سکتا ہے۔

۴۔ لَا تَرۡکُضُوۡا: ندا آتی ہے کہ فرار نہ ہو۔ اب جائے فرار تمہیں نہیں ملے گی۔

۵۔ وَ ارۡجِعُوۡۤا: اپنے عشرت کدوں کی طرف لوٹ آؤ۔ اپنے گھروں میں جا کر عیش و نوش کی جگہوں کا نظارہ کرو اور ان کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ لو۔

۶۔ لَعَلَّکُمۡ تُسۡـَٔلُوۡنَ: ان کو اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتے ہوئے دیکھ لو۔ کل لوگوں کی طرف سے سوال ہو گا کہ تمہارے عشرت کدے کیسے تباہ ہوئے؟ تو تم بتا سکو یا تم دوبارہ محترم اور مرجع عوام بن سکو اور تمہارے سامنے ہاتھ پھیلنا شروع کریں۔ ایک تمسخر ہے۔

۷۔ قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ: اب معلوم ہوا کہ وہ ظلم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ جب موت آنے لگتی ہے تو لوگ بیدار ہو جاتے ہیں۔ جب آنکھ بند ہو جاتی ہے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ جب دنیاوی مفادات کا پردہ ہٹ جاتا ہے تو بینائی آ جاتی ہے۔

۸۔ فَمَا زَالَتۡ تِّلۡکَ دَعۡوٰىہُمۡ: وہ یا ویل کی پکار میں مشغول تھے، ادھر عذاب نے انہیں آ لیا اور انہیں جڑوں سے کاٹ کر خاموش کر دیا۔

یہ کون سی بستی تھی؟ ایک روایت کے مطابق یہ یمن کی ایک بستی کا ذکر ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ تعالیٰ احیائے دین کے لیے کسی ایک قوم پر انحصار نہیں فرماتا: قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ اللہ سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے: لَا تَرۡکُضُوۡا ۔۔۔۔


آیات 11 - 15