آیت 132
 

وَ اۡمُرۡ اَہۡلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصۡطَبِرۡ عَلَیۡہَا ؕ لَا نَسۡـَٔلُکَ رِزۡقًا ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکَ ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلتَّقۡوٰی﴿۱۳۲﴾

۱۳۲۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے کوئی رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم آپ کو رزق دیتے ہیں اور انجام (اہل) تقویٰ ہی کے لیے ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اۡمُرۡ اَہۡلَکَ بِالصَّلٰوۃِ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی میں اَہۡلَکَ کے مصداق حضرت علی علیہ السلام اور حضرت خدیجہ رضوان اللہ علیہا ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ ابتدائے بعثت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نماز پڑھتے تھے۔ بعد میں جعفر اور زید بھی شامل ہو گئے۔ ۱؎

لہٰذا ابتدائے اسلام میں نماز کا حکم اہل بیت رسولؐ سے شروع ہوا ہے۔

۲۔ وَ اصۡطَبِرۡ عَلَیۡہَا: اقامۂ نماز میں صبر و تحمل سے کام لو۔ ابتدائے اسلام میں رسول ؐاور اہل بیت رسول کے لیے نماز پڑھنا آسان کام نہ تھا۔ مشرکین حالت نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پر غلاظت ڈالتے تھے۔ اس طرح نماز پڑھنا صبر آزما کام تھا۔ اسی لیے حضرت ابوطالب نے جب دیکھا کہ علی علیہ السلام حضور کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں تو اپنے فرزند جعفر کو حکم دیا کہ اپنے ابن عم کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاؤ۔۲؎

۳۔ لَا نَسۡـَٔلُکَ رِزۡقًا: نماز قائم کرنے کے حکم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم آپ کی نماز کے محتاج ہیں۔ نَحۡنُ نَرۡزُقُکَ آپ ہمارے محتاج ہیں اور نماز کے ذریعے آپ کی احتیاج پورا ہوتی ہے۔ یعنی نماز پڑھنا کسی کی ضرورت پوری کرنا نہیں، اپنی ضرورت پوری کرنا ہے۔

۴۔ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلتَّقۡوٰی: انجام ان لوگوں کا بخیر ہو گا جو بچتے رہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ بچنے والے بچ جاتے ہیں۔ لاابالی کرنے والے پھنس جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ رسولؐ و اہل بیت رسولؑ نے نماز کی ابتدا کی۔

۲۔ نماز صبر آزما دور سے گذری ہے۔

۳۔ عاقبت، اہل تقویٰ کی بخیر ہے۔


آیت 132