پرسکون زندگی کا راز ذکر خدا


وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

124۔ جو قلب ذکر خدا سے معطر نہ ہو اسے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ یہ قلب اپنے خالق سے بہت مانوس ہوتا ہے اس سے جدائی کی صورت میں اسے سکون نہیں ملتا خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کو میسر آ جائے۔ اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا، بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔ اگر یہ انسان صرف اسی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اسی دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔

وَ لَوۡ اَنَّـاۤ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِعَذَابٍ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَقَالُوۡا رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّذِلَّ وَ نَخۡزٰی ﴿۱۳۴﴾

۱۳۴۔ اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟

134۔ اگر ان پر حجت پوری ہونے سے پہلے ہم ان پر عذاب کرتے تو حجت اور دلیل ان کے پاس ہوتی اور یہ کہتے: اگر آپ کی طرف سے کوئی رسول آتا تو ہم ضرور اس کی اتباع کرتے۔