آیت 131
 

وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔ اور (اے رسول) دنیاوی زندگی کی اس رونق کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے آزمانے کے لیے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق بہتر اور زیادہ دیرپا ہے۔

تشریح کلمات

تَمُدَّنَّ:

مد العین نگاہ دیر تک مرکوز رکھنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ: اپنے رسول ؐسے خطاب کر کے اس حکم کو زیادہ تاکید کے ساتھ سب کے لیے بیان فرمایا: اپنی نگاہ کو مرکوز نہ رکھیں زندگی کی اس رونق کی طرف جو ہم نے ان کافروں کو دے رکھی ہے۔

۲۔ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ: کافروں کی مختلف صنفوں کو جو دنیا کی زیب و زینت ملی ہوئی ہے اس کی طرف نگاہ اس اعتبار سے نہ کریں کہ اس زیب و زینت سے دل چسپی ہو جائے اور دل میں خیال گذرے کہ مجھے یہ چیز کیوں حاصل نہیں یا حاصل ہونی چاہیے کیونکہ دنیا پر نگاہ مرکوز کرنے سے دل اندھا ہوجاتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایات ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

وَ مَنْ اَبْصَرَبِھَا بَصَّرَتْہُ وَ مَنْ اَبْصَرَ اِلَیْھَا اَعْمَتْہُ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۸۲)

جو شخص دنیا کو عبرتوں کا آئینہ سمجھ کر دیکھتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا کر دیتی ہے اور جو صرف دنیا ہی پر نظر رکھتا ہے تو وہ اسے کور و نابینا بنا دیتی ہے۔

۳۔ لِنَفۡتِنَہُمۡ: ہم ان کو دنیا دے کر آزمائش میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۔۔۔(۸ انفال: ۲۸)

تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔۔۔۔

بعض کے نزدیک لِنَفۡتِنَہُمۡ کے معنی لنعذبہم ہیں کہ ہم ان کو دنیا دے کر عذاب دینا چاہتے ہیں۔ اس دنیا کا مال و دولت خود دنیا میں عذاب ہے جب کہ دوسرے لوگ آرام کی نیند سوتے ہیں۔

۴۔ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی: دنیا میں امن و سکون، آخرت میں ثواب دائم، سب رزق رب ہیں جو دائمی ہیں جن کو کوئی زوال نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ اپنے خاص بندوں کو مال و دولت کی آزمائش میں نہیں ڈالتا۔

۲۔ مال و دولت خود دنیا میں بھی عذاب ہے۔

۳۔ مؤمن کو دوسروں کے مال و دولت کو حسرت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔


آیت 131