معجزہ اور بعثت انبیاء کا مقصد اتمام حجت


وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا یَاۡتِیۡنَا بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اَوَ لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی﴿۱۳۳﴾

۱۳۳۔ اور لوگ کہتے ہیں: یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے؟ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں میں سے واضح ثبوت نہیں آیا؟

133۔ معجزے کا مطلب صرف طاقت کا اظہار نہیں بلکہ اس کا مطلب حجت تمام کرنا ہے۔ اگر حجت پوری ہو چکی ہو تو معجزے کے بارے میں ہر مطالبے کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ سابقہ کتابوں میں واضح ثبوت یہی ہے کہ سابقہ امتوں نے حجت تمام ہونے کے بعد بھی معجزے طلب کیے تو جب وہ معجزے دکھائے گئے، وہ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر فوری عذاب نازل ہوا۔

وَ لَوۡ اَنَّـاۤ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِعَذَابٍ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَقَالُوۡا رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّذِلَّ وَ نَخۡزٰی ﴿۱۳۴﴾

۱۳۴۔ اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟

134۔ اگر ان پر حجت پوری ہونے سے پہلے ہم ان پر عذاب کرتے تو حجت اور دلیل ان کے پاس ہوتی اور یہ کہتے: اگر آپ کی طرف سے کوئی رسول آتا تو ہم ضرور اس کی اتباع کرتے۔