آیات 17 - 18
 

وَ مَا تِلۡکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور اے موسیٰ! یہ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟

قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّوٴُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَ لِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰی ﴿۱۸﴾

۱۸۔ موسیٰ نے کہا : یہ میرا عصا ہے، اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لیے اس میں کئی اور مفادات بھی ہیں۔

تشریح کلمات

اَتَوَکَّوٴُا:

( ت ک ء ) الاتکاء ٹیک لگانا۔

اَہُشُّ:

( ھ ش ش ) الھش کسی چیز کو حرکت دینے کے معنوں میں ہے۔ ھش الورق درخت سے پتے جھاڑنا۔

مَاٰرِبُ:

( ا ر ب ) مأربۃ سخت حاجت کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع مآرب ہے۔

تفسیر آیات

وَ مَا تِلۡکَ: یہ سوال اس بات کی تاکید کے لیے ہے کہ آنے والے معجزاتی واقعہ کے لیے کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے، موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں وہی جامد اور خشک بے جان عصا ہے جس سے ہمیشہ مختلف کام لیے جاتے رہے ہیں۔

قَالَ ہِیَ عَصَایَ: جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہا کہ یہ میرا عصا ہے بلکہ ان کاموں کا بھی ذکر کیا جو اس عصا سے لیے جاتے ہیں۔ اس عصا سے معمول کے سارے کام لیے جاتے ہیں جو ایک جامد اور بے جان لاٹھی سے لیے جا سکتے ہیں۔

وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ: اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں، سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرانے کا کام کرتے تھے۔ روایات کے مطابق جب مصر واپس جا رہے تھے تو کچھ بکریاں ہمراہ تھیں۔ اس سے پہلے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کے لیے دس سال بکریاں چرانے کاکام کرتے رہے تھے۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء علیہم السلام بھی اپنی معیشت کے لیے ذرائع استعمال فرماتے ہیں: عَلٰی غَنَمِیۡ ۔۔۔۔


آیات 17 - 18