آیات 15 - 16
 

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰی﴿۱۵﴾

۱۵۔ قیامت یقینا آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھوں گا تاکہ ہر فرد کو اس کی سعی کے مطابق جزا ملے۔

فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی﴿۱۶﴾

۱۶۔ پس جو شخص قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے کہیں وہ آپ کو اس راہ سے نہ روک دے، ایسا ہوا تو آپ ہلاک ہو جائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ السَّاعَۃَ: توحیدکے بعد دین کا بنیادی عقیدہ معاد ہے جس میں ہر شخص کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔

۲۔ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا: قیامت کب برپا ہوگی؟ یہ اس علم غیب میں سے ایک ہے جسے سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ ۔۔۔۔ (۷ اعراف۔ ۱۸۷)

یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت واقع ہونے کا وقت کب ہے؟ کہدیجیے: اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے۔

۳۔ فَلَا یَصُدَّنَّکَ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلے ہی قدم پر منکرین قیامت کے مقابلے میں قیام کے لیے آمادہ کیا، ساتھ منکرین کے عزائم سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آپ کی قیامت کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے۔

۴۔ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ: منکرین کے انکار قیامت کے عوامل کی نشاندہی بھی فرمائی، جو خواہش پرستی ہے۔ چونکہ قیامت کا تصور نہ ہونے کی صورت میں انسان خواہش پرستی میں آزاد ہو جاتا ہے۔

۵۔ فَتَرۡدٰی: انکار قیامت کا نتیجہ ابدی ہلاکت ہے کیونکہ قیامت کا منکر کسی جرم کے ارتکاب سے باز نہیں آئے گا۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔

۲۔ خواہش پرست مجرم، حساب و عدالت سے بھاگتا ہے۔


آیات 15 - 16