اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا ﴿ۙ۹۱﴾

۹۱۔ یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایسا باغ ہو جس کے درمیان آپ نہریں جاری کریں۔

اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۲﴾

۹۲۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیسا کہ خود آپ کا زعم ہے یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔

اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی کتاب اپنے ساتھ اتار نہ لائیں جسے ہم پڑھیں، کہدیجئے: پاک ہے میرا رب، میں تو صرف پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔

93۔ پیغام لانے والے انسان کی ذمہ داری دلیل و حجت کے ساتھ پیغام پہنچانا ہے، نہ یہ کہ شعبدہ بازوں کی طرح ہر ایک کے مطالبے پر روزانہ معجزات کا مظاہرہ کرتا رہے۔

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو اس پر ایمان لانے میں اور کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ کہتے تھے: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟

قُلۡ لَّوۡ کَانَ فِی الۡاَرۡضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمۡشُوۡنَ مُطۡمَئِنِّیۡنَ لَنَزَّلۡنَا عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوۡلًا﴿۹۵﴾

۹۵۔ کہدیجئے: اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے بس رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ایک فرشتے کو رسول بنا کر ان پر نازل کرتے۔

94۔95 بے علم لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ انسان اللہ کا نمائندہ کیسے ہو سکتا ہے، خاص کر بت پرستوں کا تو عقیدہ ہی انکار نبوت پر مبنی ہے۔ ان کے خیال میں نبوت اور انسان ناقابل جمع ہیں۔ وہ انسان کے مقام والا سے بے خبر ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ اس کائنات میں انسان اشرف مخلوقات کے مقام اور معلم ملائکہ کی منزلت پر فائز ہے۔

جواب میں فرمایا: زمین جس طرح انسان کے لیے نہایت سازگار جگہ ہے، اسی طرح اگر فرشتے بھی یہاں اسی سازگاری اور اطمینان سے رہ رہے ہوتے تو ہم ان کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے۔ اب یہاں انسان نہایت سازگاری کے ساتھ رہ رہا ہے، اس لیے ان انسانوں کے لیے انسان ہی رہنما اور مشعل راہ بن سکتا ہے، کیونکہ ہدایت کا تعلق قول و فعل دونوں سے ہے۔ ہادی اگر عمل میں شریک نہیں ہے تو تعلیم و تربیت کے اصولوں کی تطبیق اور سیرت و کردار کی مثال کون پیش کرے گا۔ چنانچہ اسی مطلب کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب:21)

قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا﴿۹۶﴾

۹۶۔ کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے، وہی اپنے بندوں کا حال یقینا خوب جانتا اور دیکھتا ہے۔

96۔ حجت پوری ہو گئی، دلیل و برہان میں کوئی کمی نہیں رہی حق کی دعوت دلیل کے ساتھ ان تک پہنچا دی گئی، لیکن وہ حق کے واضح ہونے کے باوجود اپنے عناد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو کہ دیجیے: اس معاملے کو اپنے مالک حقیقی کے پاس لے جاتے ہیں، وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا، چونکہ وہ میرے اعمال اور تمہارے عناد، سب کا شاہد اور گواہ ہے۔

وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ وَ نَحۡشُرُہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ عُمۡیًا وَّ بُکۡمًا وَّ صُمًّا ؕ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ کُلَّمَا خَبَتۡ زِدۡنٰہُمۡ سَعِیۡرًا﴿۹۷﴾ ۞ؒ

۹۷۔ اور ہدایت یافتہ وہ ہے جس کی اللہ ہدایت کرے اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو آپ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں پائیں گے اور قیامت کے دن ہم انہیں اوندھے منہ اندھے اور گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا، جب آگ فرو ہونے لگے گی تو ہم اسے ان پر اور بھڑکائیں گے۔

97۔ حقیقی ہدایت وہی ہے جو ہدایت کے سرچشمہ اللہ کی جانب سے ہو اور جو اس سرچشمہ سے فیض حاصل کرتا ہے وہی فیضیاب ہے اور جسے اللہ ہدایت سے محروم کر دے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائی میں منہ کے بل گرنے لگے گا تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ لے۔ واضح رہے اللہ کسی کو از خود گمراہی میں نہیں ڈالتا، بلکہ جو لوگ اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور اللہ کی رحمت کے لیے اپنے اندر ظرفیت پیدا

نہیں کرتے، ان سے اللہ اپنی رحمت روک لیتا ہے۔ اس صورت کا لازمی نتیجہ گمراہی ہے۔

ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمۡ بِاَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا﴿۹۸﴾

۹۸۔ یہ ان کے لیے اس بات کا بدلہ ہے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کا انکار کیا اور کہا: کیا جب ہم ہڈیاں اور خاک ہو جائیں گے تو کیا پھر ہم نئے سرے سے خلق کر کے اٹھائے جائیں گے؟

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ وَ جَعَلَ لَہُمۡ اَجَلًا لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَاَبَی الظّٰلِمُوۡنَ اِلَّا کُفُوۡرًا﴿۹۹﴾

۹۹۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے؟ اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں لیکن ظالم لوگ انکار پر تلے ہوئے ہیں۔

99۔ منکرین قیامت کے جواب میں فرمایا: جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ ان کے مثل بنانے پر قادر ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ۔ (المومن: 57) یعنی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ہمیشہ شکست و ریخت اور تجدید خلق کا سلسلہ جاری ہے: كُلَّ يَوْمٍ ہُوَفِيْ شَاْنٍ ۔ وہ ہر روز کرشمہ سازی میں مصروف ہے۔ مشرکین کے لیے جو ناقابل فہم بات تھی وہ جسم کا اعادﮤ خلق ہے۔ اس لیے فرمایا: اس جسم کی مثل بنانے پر اللہ قادر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عین یہی جسم دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ یہ جسم تو دنیا میں ہر سات سال بعد بدل کر کاربن کی صورت میں فضا میں منحل ہوتا رہتا ہے اور ہر سات سال بعد اللہ تعالیٰ قدیم جسم کی مثل خلق فرماتا رہتا ہے اور نفس کے اعتبار سے عیناً وہی انسان ہو گا جو دنیا میں ہے چونکہ نفس کے لیے فنا نہیں۔

قُلۡ لَّوۡ اَنۡتُمۡ تَمۡلِکُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَۃِ رَبِّیۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَکۡتُمۡ خَشۡیَۃَ الۡاِنۡفَاقِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔کہدیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پر اختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت (تنگ دل) واقع ہوا ہے۔

100۔ لوگوں پر بخل و کنجوسی کی خصلت جب غالب آ جاتی ہے تو وہ کسی کو کشائش میں نہیں دیکھ سکتے۔ کسی پر اللہ کا فضل و رحمت ہو جائے تو جل مرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کا مالک بنایا جائے تو بھی وہ خرچ نہیں کر پائیں گے۔ یہ اشارہ ان مشرکین کی طرف ہے جو صرف از راہ حسد و بخالت رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ابوجہل نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں پر افترا نہیں باندھتا، وہ اللہ پر افترا کیسے باندھ سکتا ہے۔ تاہم ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کو قبول کر کے اس کی برتری قبول کریں۔