آیت 99
 

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ وَ جَعَلَ لَہُمۡ اَجَلًا لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَاَبَی الظّٰلِمُوۡنَ اِلَّا کُفُوۡرًا﴿۹۹﴾

۹۹۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے؟ اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں لیکن ظالم لوگ انکار پر تلے ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ: منکرین قیامت کے جواب میں فرمایا: جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ ان کی مثل بنانے پر بھی قادر ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ ۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۵۷)

آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے۔

آسمانوں اور زمین میں ہمیشہ شکست و ریخت اور تجدید خلق کا سلسلہ جاری ہے: کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ۔ (۵۵ رحمٰن: ۲۹) وہ ہر روز کرشمہ سازی میں مصروف ہے۔

۲۔ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ: مشرکین کے لیے جو ناقابل فہم بات تھی وہ جسم کا اعادہ خلق تھا۔ اس لیے فرمایا: اس جسم کی مثل بنانے پر اللہ قادر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے عیناً یہی جسم دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا چونکہ یہ جسم تو دنیا میں ہر سات سال بعد بدل کر کاربن کی صورت میں فضا میں منحل ہوتا رہتا ہے اور ہر سات سال بعد اللہ قدیم جسم کی مثل خلق فرماتا رہتا ہے۔

۳۔ وَ جَعَلَ لَہُمۡ اَجَلًا: یہاں اجل سے مراد قیامت ہو سکتی ہے جس کے آنے میں کسی ریب وشک کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شک و ریب کا وجود نہیں ہے جیسا کہ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ (۲ بقرۃ: ۲) میں مذکور ہے کہ یہاں ریب و شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ نظام کائنات ہر وقت شکست و ریخت میں ہے۔

۲۔ ہر بدن اور بدن کے ہر خلیہ کے لیے ایک مدت معیّن ہے۔


آیت 99