آیات 94 - 95
 

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو اس پر ایمان لانے میں اور کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ کہتے تھے: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟

قُلۡ لَّوۡ کَانَ فِی الۡاَرۡضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمۡشُوۡنَ مُطۡمَئِنِّیۡنَ لَنَزَّلۡنَا عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوۡلًا﴿۹۵﴾

۹۵۔ کہدیجئے: اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے بس رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ایک فرشتے کو رسول بنا کر ان پر نازل کرتے۔

تفسیر آیات

بے علم لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں رہی انسان اللہ کا نمائندہ کیسے ہو سکتا ہے خاص کر بت پرستوں کا تو عقیدہ ہی انکار نبوت پر مبنی ہے۔ ان کے خیال میں نبوت اور انسان دو متضاد چیزیں ہیں۔ وہ انسان کے مقام والا سے بے خبر ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ اس کائنات میں انسان اشرف مخلوقات کے مقام اور معلم ملائکہ کی منزلت پر فائز ہے۔

جواب میں فرمایا: زمین جس طرح انسان کے لیے نہایت سازگار جگہ ہے اسی طرح اگر فرشتے بھی یہاں اسی سازگاری اور اطمینان سے رہ رہے ہوتے تو ہم ان کی طرف کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیج دیتے۔ اب یہاں انسان نہایت سازگاری کے ساتھ رہ رہا ہے اس لیے ان انسانوں کے لیے انسان ہی راہنما اور مشعل راہ بن سکتا ہے کیونکہ ہدایت کا تعلق قول و فعل دونوں سے ہے۔ ہادی اگر عمل میں شریک نہیں ہے تو تعلیم و تربیت کے اصولوں کی تطبیق اور سیرت و کردار کی مثال کون پیش کرے گا۔ چنانچہ اسی مطلب کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۲۱)

بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ ہدایت و رہبری کے لیے اللہ نے انسان کو منتخب کیا ہے۔

۲۔ زمینی ماحول انسان کی زندگی کے لیے سازگار اور اطمینان بخش ہے۔


آیات 94 - 95