آیات 90 - 93
 

وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا ﴿ۙ۹۰﴾

۹۰۔ اور کہنے لگے: ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے جب تک آپ ہمارے لیے زمین کو شگافتہ کر کے ایک چشمہ جاری نہ کریں۔

اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا ﴿ۙ۹۱﴾

۹۱۔ یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایسا باغ ہو جس کے درمیان آپ نہریں جاری کریں۔

اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۲﴾

۹۲۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیسا کہ خود آپ کا زعم ہے یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔

اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی کتاب اپنے ساتھ اتار نہ لائیں جسے ہم پڑھیں، کہدیجئے: پاک ہے میرا رب، میں تو صرف پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔

تشریح کلمات

الینبوع:

( ن ب ع ) اس چشمے کو کہتے ہیں جس کا پانی خشک نہ ہوتا ہو۔ اس کی جمع ینابیع آتی ہے۔

کِسَفًا:

( ک س ف ) الکسفۃ کے معنی بادل، روئی یا اس قسم کے دوسرے اجسام کے ٹکڑے کے ہیں۔

تفسیر آیات

یہ ہیں ان محسوس پرستوں کے مطالبے۔ ان کی سوچ، انسان کے عہد طفولیت کی سوچ ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ﴿﴾ (۲ بقرۃ: ۱۱۸)

اور بے علم لوگ کہتے ہیں : اللہ ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کر چکے ہیں ، ان کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں ، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں۔

جواب میں فرمایا: قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا ۔

اس جملے میں تین جواب ہیں:

۱۔ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ: میرا رب تمہاری ان باتوں سے پاکیزہ ہے جو تمہارے مطالبے میں ہیں۔ چونکہ ان کے مطالبے میں ایسی بات بھی ہے جو ذات الٰہی کی شان میں گستاخی ہے۔ وہ یہ ہے: اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا ۔ یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آؤ۔ یہی مطالبہ قوم موسیٰ نے بھی کیا تو ان کو فوراً سزا ملی اور ان پر بجلی گری:

قَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔۔۔۔(۴ نساء: ۱۵۳)

انہوں نے کہا: ہمیں اعلانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔۔۔۔

اس کے علاوہ ان کے مطالبات کی نوعیت پر نظر ڈالی جائے اور ان مطالبات کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو ان مطالبات کی عدم معقولیت واضح ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ کے سامنے لانے کو سونے کا ایک گھر بنانے کے برابر قرار دیتے ہیں۔

۲۔ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا: میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں خود ہی سب کچھ ہوں۔ میں نے ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ میں ایک انسان ہوں۔ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کا پابند ہوں۔

۳۔ رَّسُوۡلًا: میں رسول ہونے کے اعتبار سے اپنی صداقت کے لیے دلیل پیش کرنے اور حجت پوری کرنے کا پابند ہوں۔ حجت پوری کرنے کے بعد پیغام پہنچانا میرا کام ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نے ان کے تمام مطالبات کا ذکر کر کے مشرکین کی سطح فکری کو برملا کیا ہے۔

۲۔ روحانیت سے عاری ذہن پر ہمیشہ مادی قدریں سوار رہتی ہیں : بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ ۔۔۔۔

۳۔ وہ پہلے ہی اعتراف کرتے ہیں کہ بعض معجزات کے سامنے آنے پر بعد میں ایمان نہیں لائیں گے: وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ ۔۔۔۔


آیات 90 - 93