قُلۡ لَّوۡ اَنۡتُمۡ تَمۡلِکُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَۃِ رَبِّیۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَکۡتُمۡ خَشۡیَۃَ الۡاِنۡفَاقِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔کہدیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پر اختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت (تنگ دل) واقع ہوا ہے۔

100۔ لوگوں پر بخل و کنجوسی کی خصلت جب غالب آ جاتی ہے تو وہ کسی کو کشائش میں نہیں دیکھ سکتے۔ کسی پر اللہ کا فضل و رحمت ہو جائے تو جل مرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کا مالک بنایا جائے تو بھی وہ خرچ نہیں کر پائیں گے۔ یہ اشارہ ان مشرکین کی طرف ہے جو صرف از راہ حسد و بخالت رسول کریم ﷺ کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ابوجہل نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ محمد ﷺ لوگوں پر افترا نہیں باندھتا، وہ اللہ پر افترا کیسے باندھ سکتا ہے۔ تاہم ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم محمد ﷺ کی نبوت کو قبول کر کے اس کی برتری قبول کریں۔