وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ وَ لَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡکِیۡدِہَا وَ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ عَلَیۡکُمۡ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ اور جب تم عہد کرو تو اللہ سے عہد کو پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو اپنا ضامن بنا چکے ہو، جو کچھ تم کرتے ہو یقینا اللہ اسے جانتا ہے۔

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ تَتَّخِذُوۡنَ اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ اُمَّۃٌ ہِیَ اَرۡبٰی مِنۡ اُمَّۃٍ ؕ اِنَّمَا یَبۡلُوۡکُمُ اللّٰہُ بِہٖ ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ مَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور تم اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے پوری طاقت سے سوت کاتنے کے بعد اسے تار تار کر ڈالا، تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے، اس بات کے ذریعے اللہ یقینا تمہیں آزماتا ہے اور قیامت کے دن تمہیں وہ بات کھول کر ضرور بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے۔

92۔ کوئی قوم کسی دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتی ہے تو اس معاہدے کی پابندی کرنا ایک انسانی و اخلاقی فریضہ ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے، خواہ دوسرا فریق مسلم ہو یا غیر مسلم، ہدایت یافتہ ہو یا گمراہ۔ وفائے عہد چونکہ ایک انسانی مسئلہ ہے، لہذا فریق مخالف کو نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کون ہے، بلکہ معاہدہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے حریف کو گمراہ خیال کر کے اس کے ساتھ عہد شکنی، کذب و افترا اور بہتان تراشی کرتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی فریق حق پر ہی ہو اور اس کا فریق مقابل باطل ہی ہو تو بھی عہد شکنی، مکر و فریب کرنا ایسا جرم ہے جس کے بارے میں بروز قیامت سوال ہو گا اور الہی امتحان میں ناکام ثابت ہو گا۔

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ لَتُسۡـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

93۔ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والوں سے خطاب ہے کہ اگر دوسرے مذاہب کو طاقت کے ذریعے مٹا کر لوگوں کو ایک ہی مذہب پر لانا مقصود ہوتا تو یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان تھا۔ اس کے لیے اللہ کو ایسے نا جائز ہتھکنڈے استعمال کرنے والے نادانوں سے مدد لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے ایک ایسا غیر جبری نظام قائم فرمایا ہے کہ جس کے تحت کچھ لوگ اپنے اختیار سے ضلالت کی طرف جاتے ہیں تو اللہ طاقت کے ذریعے نہیں روکتا، انہیں جانے دیتا ہے۔ اسی مطلب کو اللہ یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ ، جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے، کی تعبیر سے بیان فرماتا ہے۔ واضح رہے کہ نا جائز ذرائع سے حق کا پرچار کرنا خود اپنی جگہ حق کی پامالی ہے۔ جب عہد شکنی اور مکر و فریب، بہتان تراشی جیسی باطل اور غیر انسانی اقدار کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو حق کس قدر کا نام ہے جسے یہ نادان زندہ کرنا چاہتا ہے۔

وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِہَا وَ تَذُوۡقُوا السُّوۡٓءَ بِمَا صَدَدۡتُّمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ لَکُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کا ذریعہ نہ بناؤ کہ قدم جم جانے کے بعد اکھڑ جائیں اور راہ خدا سے روکنے کی پاداش میں تمہیں عذاب چکھنا پڑے اور (ایسا کیا تو) تمہارے لیے بڑا عذاب ہے۔

94۔ یعنی تمہاری بدعہدی دیکھ کر لوگ اسلام سے برگشتہ ہو جائیں گے جس کی ذمہ داری تم پر عائد ہو گی۔ چنانچہ بعض نو مسلم افراد نے کہا ہے:اللہ کا شکر ہے کہ میں مسلمانوں سے متعارف ہونے سے پہلے اسلام سے آشنا ہوا ہوں، ورنہ مسلمانوں کے کردار دیکھ کر اسلام سے متنفر ہو جاتا۔

وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ اِنَّمَا عِنۡدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور اللہ کے عہد کو تم قلیل معاوضے میں نہ بیچو، اگر تم جان لو تو تمہارے لیے صرف وہی بہتر ہے جو اللہ کے پاس ہے۔

مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ بَاقٍ ؕ وَ لَنَجۡزِیَنَّ الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور جن لوگوں نے صبر کیا ہے ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر ضرور دیں گے۔

96۔ عہد الٰہی کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی چیز بھی قلیل معاوضہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز فنا پذیر اور وقتی ہے اور اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ دائمی اور غیر فانی ہے اور ان فنا پذیر چیزوں کو دوام بخشنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ انہیں عند اللہ موجود خزانے میں پس انداز کیا جائے۔

اللہ کی اطاعت کے لیے بالعموم اور ایفائے عہد کے لیے بالخصوص صبر کی ضرورت ہے اور صبر سے عمل کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے صبر کرنے والوں کے عمل کو احسن قرار دیا ہے۔

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

97۔ جی ہاں! قبول عمل کے لیے مومن ہونا شرط ہے: وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ (مائدۃ: 5) ”جو ایمان کا منکر ہے اس کا عمل رائیگاں جاتا ہے“ کیونکہ عمل کا اچھا ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ عمل کنندہ کا حسن ایمانی بھی شرط ہے۔ ایمان سے عمل کی قدر و قیمت بنتی ہے، نیک کردار مومن کو پاکیزہ زندگی میسر آتی ہے، چنانچہ غریب پرور انسان کو مساکین کی دادرسی میں جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ غریبوں کا خون چوسنے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔

فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ﴿۹۸﴾

۹۸۔ پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو راندہ درگاہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔

98۔ توجہ رکھنی چاہیے کہ تلاوت قرآن کے وقت شیطان انسان کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر سکتا ہے۔ مثلاً یہ درآمد شدہ نظریات سے متصادم ہے، جدید تجرباتی علوم سائنس سے ہم آہنگ نہیں ہے وغیرہ۔

اِنَّہٗ لَیۡسَ لَہٗ سُلۡطٰنٌ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ شیطان کو یقینا ان لوگوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ ہو گی جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔

اِنَّمَا سُلۡطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَوَلَّوۡنَہٗ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِہٖ مُشۡرِکُوۡنَ﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔ اس کی بالادستی تو صرف ان لوگوں پر ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔

100۔اللہ کی پناہ میں وہ شخص جائے گا جس پر شیطان کی بالادستی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مومن ہے اور اللہ پر توکل کرتا ہے، یعنی اللہ کی پناہ میں جاتا ہے اور جو ایمان اور توکل رکھتا ہے، وہ شیطان پر بھروسا نہیں کرے گا۔ شیطان کا زور ان لوگوں پر چلتا ہے جو اس کی بالادستی اور سرپرستی کو قبول کریں اور شیطان کی سرپرستی میں آنے والے مومن نہیں مشرک ہوتے ہیں۔