آیات 107 - 109
 

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے اور اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ سَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں۔

لَاجَرَمَ اَنَّہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ لازماً آخرت میں یہی لوگ خسارے میں رہیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسۡتَحَبُّوا: ان کے لیے عذاب عظیم اس لیے ہو گا کہ انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی ہے اور حب دنیا، دنیا پرستی تمام جرائم کی بنیاد ہے۔

۲۔ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی: اللہ کافروں کو اتمام حجت کے بعد کفر پر ڈٹ جانے کی وجہ سے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، ہدایت نہیں دیتا۔ جب وہ خود اپنے اختیار سے ایمان نہیں لاتے تو اللہ بالجبر ہدایت نہیں دیتا۔

۳۔ تمام قوانین میں بغاوت کی سزا سنگین ہوتی ہے کیونکہ بغاوت سنگین جرم ہے۔ خصوصاً عہد و پیمان کے بعد۔ ان آیات میں اسلام سے بغاوت کرنے والوں کے لیے کئی ایک سزاؤں کا ذکر ہے:

i۔ ان کے لیے عظیم عذاب ہے۔

ii۔ ان کو اللہ ہدایت سے نہیں نوازتا۔

iii۔ ان کے دلوں پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔

۴۔ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ: پہلے بھی کئی بار اس بات کا ذکر ہو چکا ہے کہ مہر لگانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جس کو اللہ پنے حال پر چھوڑ دے وہ گمراہی کی تاریکیوں میں چلاجاتا ہے۔ آیت میں مہر لگانے کا سبب ان کے آخرت کے مقابلے میں حب دنیا کو قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا پرستی سے انسان کے شعور و ادراک پر پردہ پڑ جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ جبر و اکراہ سے سرزد ہونے والے عمل پر مثبت اور منفی اثرات مترتب نہیں ہوتے۔

۲۔ حب دنیا سے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے: بِاَنَّہُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔

۳۔ بغاوت (مرتد ہونا) سنگین جرم ہے۔


آیات 107 - 109