مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

106۔ یہ آیت عمار، صہیب، بلال اور خباب کے بارے میں نازل ہوئی جن کو مکہ میں اذیتیں دی گئیں۔ عمار کے والد یاسر اور والدہ قتل ہو گئے اور عمار نے وہ کچھ کہ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ عمار کافر ہو گیا: یہ سن کر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ان عمارا ملیء ایمانا من قرنہ الی قدمہ و اختلط الایمان بلحمہ و دمہ ۔ یعنی عمار سرتاپا ایمان سے سرشار ہے۔ ایمان اس کے گوشت و خون میں رچا بسا ہوا ہے۔ عمار روتے ہوئے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان عادوا لک فعد لھم اگر وہ پھر ایسا کرے تو تو بھی دوبارہ ایسا کہ دینا۔ (بحار الانوار 19: 35) تنگ نظر مخالفین کی طرف سے نظریے و عقیدے کی آزادی سلب کرنے کی صورت میں تقیہ کی نوبت آتی ہے، ایسے حالات میں اپنے عقیدے پر قائم رہ کر اپنا بچاؤ کرنا ایک انسانی حق ہے۔ عار و ننگ ان لوگوں کے لیے ہے جو دوسروں کو تقیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔