آیت 110
 

ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰہَدُوۡا وَ صَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱۰﴾٪

۱۱۰۔ پھر آپ کا رب یقینا ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا ان باتوں کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

تشریح کلمات

فُتِنُوۡا:

( ف ت ن ) الفتن کے اصل معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہو جائے۔ اسی سے تکلیف و آسائش کے ذریعے انسان کے صبر و شکر کا امتحان لینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا: کلام کا سلسلہ ان لوگوں کے بارے میں جاری ہے جو راہ ایمان میں ظلم و ستم سے دوچار اور اس جان لیوا آزمائش میں کامیاب ہوئے۔ اپنے ایمان پر قائم رہے اور ہجرت اختیار کی۔ ممکن ہے حبشہ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہو یا بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں ہونے والی ہجرت کی طرف اشارہ ہو۔

۲۔ منۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ: مہاجرت کے بعد جہاد راہ خدا میں پیش آنے والی مشقتوں پر صبر اختیار کرے تو ان تمام مراحل، آزمائش میں استقامت، راہ خدا میں مہاجرت، جہاد فی سبیل اللہ اور مشکلات میں صبر اختیار کرنے کے بعد اگر کوئی کوتاہی ان سے سرزد ہو جائے تو اللہ بڑا معاف فرمانے والا مہربان ہے۔

آیت کے اس جملے سے دو باتیں سامنے آتی ہیں: اول یہ کہ ہجرت، جہاد اور صبر کے باوجود مغفرت رب کا محتاج ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعمال صالحہ بجا لانے والے مغفرت رب کے مستحق ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس کوئی عمل نہ ہو تو وہ لائق مغفرت نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ آزمائش پر پورے اترنے والے مجاہدین عفو الٰہی کے مستحق ہیں۔

۲۔ اس آیت سے ہجرت اور جہاد نہ کرنے والے طلقاء کا حال معلوم ہو جاتا ہے۔


آیت 110