آیت 14
 

وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور اسی نے (تمہارے لیے) سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنتے ہو اور آپ دیکھتے ہیں کہ کشتی سمندر کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بنو۔

تشریح کلمات

طَرِیًّا:

( ط ر ی ) الطری تر و تازہ۔

مَوَاخِرَ:

( م خ ر ) مخرت السفینۃ ۔ کشتی کا اپنے سینے سے پانی کو چیرنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ: خشکی نعمتوں کے بعد بحری نعمتوں کا ذکر ہے۔ ان نعمتوں میں تازہ گوشت سر فہرست ہے۔ مچھلی کا گوشت تازہ ہی کھایا جاتا ہے کیونکہ اگر یہ سڑ جائے تو بہت مضر ہوتا ہے۔

۲۔ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا: دوسری نعمت، زیب و زینت کے لیے سمندری موتیاں اور مونگے ہیں۔ جیساکہ اس سے پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جمالیاتی ذوق انسانوں میں ودیعت فرمایا ہے۔ اس کی تسکین بھی خود اسی کی طرف سے ہونی چاہیے۔ البتہ اس ذوق کی تسکین کے لیے دوسروں یا اپنے نفس پر زیادتی نہ ہو۔

۳۔ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ: تیسری نعمت کشتیاں ہیں۔ جن کی حمل و نقل میں حاصل اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

یہ تمام نعمتیں ، جن پر انسان کی زندگی قائم ہے، اللہ نے عنایت فرمائی ہیں تو اللہ کے علاوہ معبودوں نے تمہاری تدبیر حیات کے لیے کون سی نعمت فراہم کی ہے؟

اہم نکات

۱۔ گوشت کی تازگی کو بہت اہمیت حاصل ہے: لَحۡمًا طَرِیًّا ۔۔۔۔

۲۔ جمالیاتی ذوق کی تسکین اپنے حدود میں درست ہے: حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۔۔۔۔


آیت 14