آیات 15 - 16
 

وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ اَنۡہٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور نہریں جاری کیں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پاتے رہو۔

وَ عَلٰمٰتٍ ؕ وَ بِالنَّجۡمِ ہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور علامتیں بھی (بنائیں) اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کر لیتے ہیں۔

تشریح کلمات

تَمِیۡدَ:

( م ی د ) المیدان ۔ مضطرب، ڈگمگانے اور ڈھلک جانے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ: قرآن مجید متعدد آیات میں اس نکتہ کو بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ پہاڑ کی تخلیق کا اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے زمین میں اضطرابی حالت ختم ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے قرآن مجید کا اشارہ اس بات کی طرف ہو کہ زمین کے اندرونی طبقات میں موجود لاوا آتش فشانی کے ذریعے سطح زمین پر آتا ہے اور پہاڑ بن جاتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ ہوتا تو زیر زمین موجود لاوا اور آتشین مواد سے زمین ڈھلک جاتی اور ڈگمگانے لگتی:

وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَیَدَانَ اَرْضِہِ ۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ خ ۱)

تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔۔۔۔

مزید وضاحت کے لیے سورۃ الانبیاء آیت ۷ ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ وَ اَنۡہٰرًا: پہاڑوں کا دوسرا اہم فائدہ پہاڑوں سے بہنے والے پانی سے متشکل ہونے والی نہریں ہیں جن سے نشیبی علاقے سیراب ہوتے ہیں۔

۳۔ وَّ سُبُلًا: پہاڑوں کے درمیان ندی نالوں کے بہنے سے بننے والے راستے جن کا مشاہدہ پہاڑی علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

۴۔ وَ عَلٰمٰتٍ: اس نے زمین کی ساخت اس طرح رکھی ہے کہ ہر علاقہ دوسرے علاقے سے ممتاز ہوتا ہے اور لوگ مختلف علاقوں کو اس کے نشانیوں سے پہچان لیتے ہیں۔

۵۔ وَ بِالنَّجۡمِ ہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ: جہاں اس قسم کی کوئی علامت نہ ہو اور پورا علاقہ یکساں ہو۔ جیسے صحرا اور سمندر ہیں۔ ان میں انسان قدیم سے آج تک اپنا راستہ ستاروں سے معلوم کر رہے ہیں۔

شیعہ مصادر کے علاوہ شواھد التنزیل میں حسکانی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دو روایات بیان کی ہیں: بِالنَّجۡمِ علی علیہ السلام ہیں۔ دوسری روایت میں ہے: بِالنَّجۡمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وَ عَلٰمٰتٍ ان کے اوصیاء علیہم السلام ہیں۔

اہم نکات

۱۔ پہاڑوں کو زمین کے استقرار اور شادابی میں بڑا دخل ہے۔


آیات 15 - 16