آیات 155 - 156
 

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۵﴾ۙ

۱۵۵۔اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ؕ

۱۵۶۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

تفسیر آیات

فلسفۂ آزمائش: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے؟اس بارے میں ہم نے آیۂ وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ ۔۔۔ {۲ بقرہ: ۱۲۴} کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ استحقاق، تکامل، ارتقا اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے آزمائش عمل میں لائی جاتی ہے کیونکہ آزمائش سے عمل اور عمل سے استحقاق لازم آتا ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ۔ {۲۹ عنکبوت: ۲}

کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ اِنْ کَانَ سُبْحَانَہٗ اَعْلَمُ بِھِمْ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ لٰکِنْ لِتُظْھِرَ اَلْاَفْعَالَ اَلَّتِیْ بِھَا یُسْتَحَقُّ اَلثَّوَابُ وَ الْعِقَابُ ۔ {بحار الانوار ۹۱: ۱۹۷}

اگرچہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال سے خود ان سے زیادہ آگاہ ہے، لیکن پھر بھی (آزمائش اس لیے ہوتی ہے کہ) ان سے ایسے افعال صادر ہوں جن سے ثواب و عقاب کا استحقاق بن جاتا ہے۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، لیکن علم خدا کے باعث نہ کوئی شخص ثواب کا مستحق بن سکتا ہے نہ عذاب کا سزاوار، بلکہ استحقاق ثواب و عقاب کا معیار عمل ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے درج ذیل باتیں ذکر فرمائی ہیں جن سے امتحان لیا جاتا ہے:

۱۔ خوف: درپیش خطرے کے اندیشے کوخوف اور مطلوبہ فائدے کی توقع کو رجاء کہتے ہیں:

یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ۔ {۱۷بنی اسرائیل ۵۷}

اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی۔

خوف کے مقابلے میں اَمن ہے۔ جنہیں خوف لاحق ہوتا ہے انہیں اَمن کی قدر ہوتی ہے۔ جس طرح بیماری میں مبتلا ہونے پر صحت کی قدر ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے:

نِعْمَتَانِ مَجْھُوْلَتَانِ اَلْاَمْنُ وَ الْعَافِیَۃُ ۔ {روضۃ الواعظین ۲ : ۴۷۲}

صحت اور امن دو پوشیدہ نعمتیں ہیں۔

۲۔ جوع: (فاقہ کشی) انسانی جسم ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے۔ اس کے عدم تدارک کا نام فاقہ ہے جو نہایت کربناک حالت ہوتی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام روایت ہے:

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ مَا یَدُلُّکَ عَلٰی مَسَاوِی الدُّنْیَا وَ عُیُوْبِہَا اِذْ جَاعَ فِیْھَا مَعَ خَاصَّتِہٖ۔خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیْصًا وَ وَرَدَ الْاٰخِرَۃَ سَلِیْمًا ۔ {نہج البلاغہ خ ۱۵۸}

رسول خدا (ص) کی سیرت میں ایسی چیزیں ہیں جو تمہیں دنیا کے عیوب اور اس کی قباحتوں کا پتہ دیتی ہیں۔ کیونکہ آپ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے۔ دنیا سے آپ (ص) بھوک و فاقے کے ساتھ تشریف لے گئے اور آخرت میں سلامتی کے ساتھ پہنچ گئے۔

یعنی اس انقلاب کی راہ میں تمہیں ان معاشی مشکلات کا مقابلہ بھی کرنا ہو گا جو مخالفین کی اقتصادی ناکہ بندی اور تجارتی پابندیوں کی وجہ سے پیش آ سکتی ہیں۔مثال کے طور پر دعوت الی الحق کے جرم میں حضور(ص) اور آپ (ص) کے حامیوں کو تین سال تک شعب ابی طالب میں قریش کی طرف سے اقتصادی و معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح دس ہجری میں اقتصادی بحران کے خطرے کے باوجود مسجد الحرام میں مشرکین کے داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ (یاد رہے کہ مکہ ان دنوں اہم ترین تجارتی مرکز تھا اور اہل مکہ کی اقتصادی آمدنی کا انحصار مختلف علاقوں سے آنے والے مشرکین کے ساتھ تجارت پر تھا)۔ اس سلسلے میں جب بعض لوگوں کو تشویش ہوئی تو ارشاد ہوا:

وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ۔ {۹ توبہ : ۲۸}

اور اگر( مشرکین کا داخلہ بند ہونے سے) تمہیں غربت کا خوف ہے تو (اس کی پرواہ نہ کرو) اگر اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے بے نیاز کر دے گا۔

۳۔ نقصان اموال: آزمائش کا یہ تیسرا مرحلہ ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۔۔۔ {۸ انفال : ۲۸}

اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہیں۔

جس طرح مالی نقصان آزمائش ہے، اسی طرح دولت کی فراوانی بھی آزمائش ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اَلْمَالُ مَادَّۃُ الشَّہَوَاتِ ۔ {نہح البلاغۃ کلمات قصار حکمت:۵۸۔ بحار الانوار ۷۵ : ۱۴}

خواہشات کا سر چشمہ مال ہے۔

۴۔ نقص انفس: یعنی جانوں کا ضیاع۔ مثلاً عزیزوں اور دوستوں کی موت، نیز وبا، زلزلہ اور جنگ سے ہونے والی اموات کے ذریعے بھی آزمایا جائے گا۔

۵۔ نقص ثمرات: ثمرات کے نقصان سے مراد پھلوں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، جس سے قحط سالی آجاتی ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ثمرات سے مراد ثمرات دل یعنی اولادہے۔ اولاد کی موت کا امتحان سب سے کڑی آزمائش ہوتی ہے۔ اسی لیے اگرچہ یہ نقصان نقص انفس میں شامل ہے، لیکن اسے علیحدہ ذکر کیا گیا ہے۔

ان آیات میں مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیاوی زندگی کو عیش و عشرت سے عبارت نہ سمجھو اور نہ خدا و رسول(ص) پر ایمان لانے کا یہ مطلب لو کہ تم پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی بلکہ خدا تمہاری ارتقا کے لیے ہی تمہیں آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزارے گا۔ کچھ لوگ ان آزمائشوں میں ناکام رہیں گے۔ وہ ان مشکلات کے تحمل کا حوصلہ نہیں رکھتے، کیونکہ ان کی شخصیت اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے اور کچھ لوگ ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں گے، آزمائش خواہ کتنی کڑی ہو، ان کا صبر اس سے بھی عظیم ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایسے صابرین کو بشارت دیجیے: وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ۔

ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ صبر کے پیچھے کچھ عوامل کار فرما ہوتے ہیں جن کے بغیر صبرکرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہاں پر بھی سوال پیدا ہو تا ہے کہ کس قسم کے لوگ صابر ہوتے ہیں؟ ان میں صبر کا جذبہ کہاں سے آتا ہے؟ ان کا نظریہ کیا ہے؟ ان میں کون سی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ صبر کرتے ہیں اور ان کے لیے خداوند عالم فرماتا ہے کہ ایسے صابروں کو بشارت دیجیے جو مصیبت کے وقت یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔

صابرین کا نظریۂ کائنات: کائنات کے بارے میں صابرین کے دو نہایت اہم نظریے ہیں جو ان کے صابرانہ اور شجاعانہ کردار کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں:

۱۔ اِنَّا لِلہِ: ’’ہم اللہ کے لیے ہیں‘‘۔ اس نظریے سے انسانی وجود کی منطقی توجیہ میسر آتی ہے۔ یہ انسان مادے کے ہاتھوں ایک لایعنی اورعبث کھلونا نہیں ہے کہ وہ بلا وجہ اسے مصائب و آلام میں مبتلا کر دے، بلکہ یہ انسان اللہ کے لیے ہے :

الف: اس کا مالک حقیقی اللہ ہے۔ اس کی ذات کا مالک، اس کے امور کی تدبیر کا مالک اور اس کی زندگی پر اثر انداز علل و اسباب کا مالک اللہ ہے۔

ب: اللہ نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دے رکھا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔

ج: وہ کسی کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ دراصل وہ محتاج نہیں کہ ظلم کرے۔ زندگی میں پیش آنے والے ہر نشیب و فراز کے پیچھے اس مالک حقیقی اور اس رحیم و کریم کا ہاتھ ہے جو کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ لہٰذا اس نظریے کا حامل انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس زندگی میں پیش آنے والے مصائب و آلام میرے اپنے ارتقا کا سبب اور یہ دونوں جہانوں کی مصلحتوں اور سعادتوں کے امین ہیں۔ اس نظریے اور اس طرز فکر کا مالک یقینا صبر کرے گا۔

۲۔ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ: اور ہم نے اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اس نظریے کے تحت صابرین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخر کار ہم سب نے اسی کی بارگاہ میں حاضرہونا ہے، جہاں نیکیوں کا ثواب ملے گا اور برائیوں پر عقاب ہو گا۔ اس جملے میں مظلوم کے لیے تسلیت اور ظالم کی تنبیہ ہے۔

رجوع الی اللہ کی دوقسمیں ہیں:

۱۔ رجوع اضطراری: شرعی احکام کی مکلف تمام مخلوقات کو اللہ کے پاس جانا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۔ {۸۴ انشقاق : ۶}

اے انسان ! تو مشقت اٹھا کراپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے۔

۲۔ رجوع اختیاری: یعنی مؤمن اللہ کی خدمت میں جانے کے لیے فکری اور عملی طور پر ہمیشہ آمادہ رہتا ہے۔ یہ تیاری اور آمادگی اس کے ہر عمل اور ہر قدم میں نظر آتی ہے۔

رجوع اختیاری والے تین گروہ ہیں:

الف: وہ مومن جس کے ہر عمل اور قدم میں رجوع الی اللہ پر ایمان کا عنصر غالب ہو اس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

فَاِنَّہٗ مَنْ مَّاتَ مِنْکُمْ عَلٰی فِرَاشِہٖ وَ ھُوَ عَلٰی مَعِرَفَۃِ حَقِّ رَبِّہٖ وَ حَقِّ رَسُوْلِہٖ وَ اَھْلِ بَیْتِہٖ مَاتَ شَہِیْدًا وَ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ۔ {نہج البلاغہ، خ ۱۸۸ ص ۵۱۰}

بلا شبہ تم میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ص) اور ان کے اہل بیت (ع) کے حق کو پہچانتے ہوئے بستر پر بھی دم توڑے، وہ شہید مرتا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔

ب: وہ شہید جو راہ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں اپنے اختیار سے چل کر جاتا ہے۔ اسی لیے حدیث نبوی (ص) ہے:

فَوْقَ کُلِّ ذِیْ بِرٍّ بِرٌّ حَتّٰی یُقْتَلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاِذَا قُتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَیْسَ فَوْقَۃُ بِرٌّ ۔ {الواسائل۱۵ : ۱۶}

ہر نیکی سے بالاتر ایک اور نیکی ہوتی ہے، سوائے راہ خدا میں شہادت کے۔ راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی اس نیکی سے بالاتر کوئی اور نیکی نہیں ہے۔

ج۔ اولیاء اللہ: اللہ کے ولی بھی مرضی اور رغبت کے ساتھ اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس لیے وہ موت کی تمنا کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے فرمایا:

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ۔ {۶۲ جمعہ : ۶}

کہدیجیے: اے یہودیت اختیار کرنے والو! اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو، دوسرے لوگ نہیں، تو موت کی تمنا کرو، اگر تم سچے ہو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء اللہ، لقائے رب کے مشتاق اور موت کے متمنی ہوتے ہیں۔ چنانچہ سردار اولیاء حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان مشہور ہے : موت میرے لیے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔

نیز آپ(ع) سے مروی ہے :

وَ اللّٰہِ لَاِبْنُ اَبِیْ طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّہٖ ۔ {نہج البلاغہ خ ۵ ص ۱۰۸۔بحار الانوار ۲۸ : ۲۳۳}

خدا کی قسم ابوطالب کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے جتنا بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے انس رکھتا ہے۔

احادیث

رسول خدا (ص) سے روایت ہے:

مَنْ اِسْتَرْجَعَ عِنْدَ الْمُصِیْبَۃِ جَبَرَ اللّٰہُ مُصِیْبَتَہٗ وَ اَحْسَنَ عُقْبَاہُ وَ جَعَلَ لَہٗ خَلَفًا صَالِحًا یَرْضَاہُ ۔ {مجمع البیان۔ مستدرک الوسائل ۲ : ۴۰۲}

جو مصیبت کے موقع پر اِنَّا لِلّٰہِ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کا تدارک فرماتا ہے، اس کی عاقبت کو بہتر بنا دیتا ہے اور اسے نیک اور پسندیدہ نعم البدل عنایت فرماتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ الہٰی انسان کی زندگی کا ہدف صرف اللہ ہے، وہ اللہ کو اپنا مالک سمجھتا ہے: اِنَّا لِلّٰہِ ۔

۲۔ انسانی ارتقا کی آخری منزل بارگاہ الہی ہے: وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔

۳۔ مؤمن کا مبدا و منتہی اللہ کی ذات ہے کہ اللہ کے پاس سے آیا ہے اور پلٹ کر اللہ ہی کے ہاں جانا ہے: اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔

۴۔ مؤمن، شہیداور اولیاء اللہ فکری اور عملی تیاری کے ساتھ اپنی رضا و رغبت سے واپسی کا یہ سفر طے کرتے ہیں۔

۵۔ مبدا و معاد پرمشتمل مؤمن کی جہاں بینی کی جامع ترین، مختصر ترین اور فصیح ترین تعبیر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ہے۔

۶۔ آزمائش خدا وند عالم کا ایک تکوینی قانون ہے: وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ ۔

۷۔ آزمائش کامقصد انسانی صلاحیتوں کا ارتقا ہے۔

۸۔ خوف، معاشی مشکلات، مالی نقصانات، جانوں کا ضیاع اور اولاد کی مصیبت، یہ سب آزمائش کی مختلف صورتیں ہیں: وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ ۔

۹۔ ان آزمائشوں میں وہی شخص کامیاب ہو کر ارتقائی مراحل طے کرے گا جو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کے مستحکم قلعے میں بیٹھ کر ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرے گا۔

تحقیق مزید:

آیت ۱۵۵: مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۶۱، الارشاد ۲ : ۳۷۷، تاویل الایات ص ۸۷، مسکن الفؤاد ص ۵۳


آیات 155 - 156