آزمائشوں کا فلسفہ


الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ؕ

۱۵۶۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

156۔ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو جب امتحان گھیر لیتا ہے تو صبر و رضا کے مقام پر فائز انسان کا مؤقف یہ ہوتا ہے: اِنَّا لِلّٰہِ ”ہم اللہ کے لیے ہیں“۔ اس نظریے سے انسان کو آزمائشوں کی منطقی توجیہ میسر آتی ہے کہ وہ فطرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا نہیں ہے، بلکہ ایک غفور و رحیم ذات کا عبد ہے جو کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتی۔ لہٰذا یہ مصائب و آلام خود ہمارے ارتقاء کے لیے ہیں۔ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ”اور ہم نے اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے“، ارحم الراحمین کے جوار رحمت میں جانا ہے۔ رجوع الی اللّٰہ کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے اللہ کی بارگاہ میں اسے حاضر ہونا ہے۔ دوسری رجوع اختیاری ہے، جس کے تحت شہداء اور اولیاء اللہ اپنی مرضی سے خود چل کر مشتاقانہ اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں۔ ان کے لیے موت شہد سے بھی شیریں ہوتی ہے۔ رسول خدا ﷺ سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعطیتہ ثلاث خصال لو اعطیت واحدۃ منہن ملائکتی لرضوا بہا منی ۔ میں نے اپنے بندے کو تین چیزیں دی ہیں۔ ان میں سے ایک بھی میں اپنے فرشتوں کو دیتا تو وہ خوش ہو جاتے۔ پھر فرمایا: ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے موقع پر کہے: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ (الکافی 2:13)