آیت 157
 

اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۷﴾

۱۵۷۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

تشریح کلمات

صَلَوٰتٌ:

(ص ل و) یہ کلمہ دعا، رحمت، شفقت اور ہمدردی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے صَلوٰت اس کی عنایت ہے۔ فرشتوں کی صَلَوت سے مراد ہمدردی ہے کہ وہ وسیلۂ فیض بن جاتے ہیں اور انسانوں کی صَلَوت دعا سے عبارت ہے۔ اس لفظ پر کچھ تحقیق سورۂ بقرہ کی ابتدا میں ہو چکی ہے۔

تفسیر آیات

آزمائشوں میں صبر کے ذریعے کامیاب ہونے والوں پر رحمتیں اور عنایات نازل ہوں گی۔ اللہ کی رحمت و عنایت ( صَلَوات ) کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟اس بارے میں قرآن دوسری جگہ فرماتا ہے :

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۔ {۳۳ احزاب : ۴۳}

وہی تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (دعا کرتے ہیں) تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے۔

رسول کریم (ص) سے صَلَوات کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ؕ سَیُدۡخِلُہُمُ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ۔۔ {۹ توبہ : ۹۹}

اور انہی بدوؤں میں کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقرب اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ہاں یہ ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے، اللہ عنقریب انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔

دوسری جگہ رسول (ص) کی صَلَوات (دعا) کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ۔ {۹ توبہ : ۱۰۳}

اور ان کے حق میں دعا بھی کریں یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔

لہٰذا خدا کی صَلَوت اور رسول کی صَلَوت کے اثرات یہ ہیں کہ ہر قسم کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں، قربت الہٰی و رحمت خداوندی کاحصول ہوتا ہے اور دلوں کو سکون و راحت میسر آجاتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ ہدایت و سعادت سے ہمکنار ہوناہے: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ۔

احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے درجات کے مطابق آزمائش کے بھی مراحل ہوتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے:

سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم مَنْ اَشَدُّ النَّاسِ بَلَاء فِی الدُّنْیَا ؟ فَقَالَ: النَّبِیُّوْن ثُم الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ وَ یُبْتَلَی المُؤْمِنُ بَعْدُ عَلَی قَدْرِ اِیمَانِہِ ۔ {اصول الکافی ۲ : ۲۵۲}

رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا: دنیا میں کن لوگوں کی کڑی آزمائش ہوتی ہے؟ فرمایا: انبیاء کی، پھر درجہ بدرجہ، پھر مؤمن کی آزمائش اس کے ایمان کے مطابق ہو گی۔

تاریخ شاہد ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو تاریخ کی سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ائمہ علیہم السلام کو کن مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا، اس کی امام شافعی نے ایک جامع صورت بیان کی ہے

تَزَلْزَلَت الدُّنْیا لآِلِ مُحمُدٍ

وَ کَادَتْ لَہُمْ صُمُّ الجِبَالِ تَذُوْبُ

آل محمد کی مصیبتوں سے دنیا ہل کر رہ گئی جن سے سخت چٹانیں بھی پگھل جائیں۔

ان مصائب کے مقابلے میں ائمہ نے تَسْلِیْماً لِاَمْرِہِ وَ رِضاً بِقَضَائِہِ {بحار الانوار ۷۸ : ۲۶۲} یعنی تسلیم و رضا کا مؤقف اختیار کر کے صبر و تحمل کا وہ مظاہرہ فرمایا جس سے وہ صبر و رضا کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ کے اولین مصداق قرار پائے۔ جب وہ اللہ کی طرف سے صلٰوۃ و درود کے اہل قرار پائے تو ہم بھی انہیں علیہم السلام کہتے ہیں۔ واضح رہے ائمہ اہل بیت کے لیے علیہم السلام کہنا اور لکھنا صرف شیعہ امامیہ کا مؤقف نہیں ہے، جیسا کہ بعض ناآگاہ لوگوں کا خیال ہے بلکہ یہ بات اہل بیت علیہم السلام کی خصوصیات میں سے ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں متعدد مقامات پر ائمہ اہل بیت کے اسمائے مبارکہ کے ساتھ علیہ السلام لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو : جلد سوم صفحہ ۹۱۷، کتاب توحید میں ’’حسین بن علی علیہما السلام‘‘ کتاب فرض الخمس جلد سوم صفحہ ۸۶۲ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی میں ’’فاطمہ علیہا السلام‘‘ کتاب فرض الخمس میں’’ حسین بن علی علیھما السلام ‘‘ کتاب الاعتصام میں ’’ فاطمہ علیھا السلام ‘‘ کتاب المغازی میں ’’ علی بن حسین ان حسین بن علی علیھم السلام ‘‘ کی عبارات تحریر ہیں۔

اہم نکات

۱۔ آزمائشوں میں صبر و صلوٰۃ کے ذریعے کامیابی رحمت خداوندی اور ہدایت الہٰی سے فیض یاب ہونے کا ذریعہ ہے۔

۲۔ سکون قلب اورروشن مستقبل اللہ سے لو لگائے بغیراور مشکلات میں صبر و استقامت دکھائے بغیر ممکن نہیں۔

تحقیق مزید: الکافی ۲ : ۹۲، غیبۃ النعمانی ص ۶۳


آیت 157