آیات 105 - 107
 

یَوۡمَ یَاۡتِ لَا تَکَلَّمُ نَفۡسٌ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَّ سَعِیۡدٌ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ شَقُوۡا فَفِی النَّارِ لَہُمۡ فِیۡہَا زَفِیۡرٌ وَّ شَہِیۡقٌ﴿۱۰۶﴾ۙ

۱۰۶۔پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بیشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔

تشریح کلمات

زَفِیۡرٌ:

( ز ف ر ) اس کے اصل معنی سانس کی اس قدر تیز آمد و رفت کے ہیں کہ جس سے سینہ پھول جائے۔

شَہِیۡقٌ:

( ش ھ ق ) کے معنی لمبا سانس کھینچنے کے ہیں لیکن شَہِیۡقٌ سانس لینے اور زَفِیۡرٌ سانس چھوڑنے پر بولا جاتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ شاھق سے ماخوذ ہے جس کے معنی انتہائی بلند پہاڑ کے ہیں۔ استعمال میں یہ دونوں الفاظ مصیبت زدہ لوگوں کی چیخ و پکار کے لیے زیادہ رائج ہیں۔ بقول زجاج زَفِیۡرٌ بری طرح چلانے کی ابتدائی حالت کو کہتے ہیں جیسے گدھے کی ابتدائی آواز ہوتی ہے اور شَہِیۡقٌ اس سے زیادہ بلند آواز کو کہتے ہیں جیسے گدھے کی انتہائی بلند آواز۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ یَاۡتِ لَا تَکَلَّمُ نَفۡسٌ: قیامت کے روز اللہ کی طرف سے اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکے گا۔اللہ کی بارگاہ میں کسی کو کسی قسم کی شفاعت و التجا کرنے کی جرات نہ ہو گی۔ اللہ سے ہمکلام ہونا ممکن ہی نہ ہو گا مگر اینکہ اللہ کی طرف سے اجازت ہو۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا﴿﴾ ۔۔۔۔ (۷۸ نباء: ۳۸)

اس روز روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے اور کوئی بات نہیں کر سکے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو درست بات کرے۔

یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ ۔۔۔۔ (۲۰ طٰہٰ: ۱۰۹)

اس دن شفاعت کسی کو فائدہ نہیں دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے۔۔۔۔

یہ ان لوگوں کی رد میں فرمایا جو غیر مجاز اور غیر ماذون لوگوں کی شفاعت کی امید میں رہتے ہیں۔

۲۔ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ شَقُوۡا: بدبخت لوگ جب تک آسمان اور زمین ہیں جہنم میں رہیں گے۔ یہ ان کی جہنمی زندگی کی ابدیت کو ظاہر کرنے کے لیے فرمایا۔

۳۔ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ: یعنی جہنم کی زمین و آسمان۔ ورنہ دنیاوی زمین و آسمان تو نابود ہو چکے ہوں گے۔

۴۔ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ: سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں آپؐ کے رب کی مشیت یہ ہو کہ وہ آتش میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ احادیث کے مطابق وہ گناہ گار مؤمنین ہیں جو اپنی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو جائیں گے مگر بالآخر شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیے جائیں گے۔

۵۔ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ: اللہ تعالیٰ جب عدل و انصاف کے مطابق ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ قابل تصور نہیں ہے۔ اس لیے لفظ فَعَّالٌ کے ساتھ تعبیر فرمایا کہ اللہ اپنے تمام ارادوں پر خوب عمل کرنے والا ہے۔

اہم نکات

۱۔ جہنم کے بھی زمین و آسمان ہوں گے: مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۔۔۔

۲۔ اہل جہنم گدھوں کی آواز کی طرح چلائیں گے: لَہُمۡ فِیۡہَا زَفِیۡرٌ وَّ شَہِیۡقٌ ۔۔۔۔


آیات 105 - 107