آیت 110
 

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی پھر اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فیصلہ کن کلمہ نہ کہا گیا ہوتا تو ان کا بھی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس بارے میں تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ: وہ بت پرستوں کا انجام تھا اور اہل کتاب کی حالت یہ تھی کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تو لوگوں نے اس کتاب میں ایسا ہی اختلاف کیا جیسا کہ آج آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں کر رہے ہیں۔ اس اختلاف سے مراد ایمان میں اختلاف ہے، نہ کہ ایمان کے بعد کا اختلاف۔ اگرچہ بعض اجلّہ نے بعد کا اختلاف لکھا ہے۔

۲۔ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ: کتاب جیسی دلیل کے ذریعے ہم نے ان قوموں پر حجت قائم کر کے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ ایک تو ان کو ڈھیل دی جائے اور ثانیاً ان کے درمیان فیصلہ قیامت کے روز کرنا ہے تو آج اہل کتاب کا انجام بھی بت پرستوں سے مختلف نہ ہوتا۔

یہودیوں کو تو اب بھی اپنی کتاب کی صحت کے بارے میں شک ہے کیونکہ توریت بابل کی اسیری کے بعد صرف حافظے کی بنیاد پر لکھی گئی۔ اصل توریت تو نذر آتش ہو گئی۔

۳۔ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ : یہ منکرین مِّنۡہُ قرآن کے بارے میں ایک ایسے شک میں مبتلا ہیں جو شبہ آور ہے۔ چونکہ شک میں نفی اور اثبات دونوں برابر ہوتے ہیں جبکہ مُرِیۡبٍ وہ ہے جس میں نفی کو ترجیح دی جائے۔

اہم نکات

۱۔ دینی اختلاف کی صورت میں ڈھیل دی جاتی ہے۔


آیت 110