قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡنَا ضَعِیۡفًا ۚ وَ لَوۡ لَا رَہۡطُکَ لَرَجَمۡنٰکَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡنَا بِعَزِیۡزٍ﴿۹۱﴾

۹۱۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور بیشک تم ہمارے درمیان بے سہارا بھی نظر آتے ہو اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کر چکے ہوتے (کیونکہ) تمہیں ہم پر کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے ۔

91۔عموماً تنگ نظر لوگ اپنے خیالات سے مختلف باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ مکے کے لوگ بھی اس تنگ نظری میں کسی سے کم نہ تھے۔ اسی مناسبت سے حضرت شعیب علیہ السلام کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے اور اسی مناسبت سے مشرکین مکہ بھی بنی ہاشم کے خوف کی وجہ سے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔

قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَہۡطِیۡۤ اَعَزُّ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اتَّخَذۡتُمُوۡہُ وَرَآءَکُمۡ ظِہۡرِیًّا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۹۲﴾

۹۲۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمہارے لیے اللہ سے زیادہ اہم ہے کہ تم نے اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے؟ میرا رب یقینا تمہارے اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔

92۔ قوم کے توہین آمیز مؤقف کے جواب میں حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کے فکری سفلہ پن اور عقلی بے مائیگی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: تم اللہ کے مقابلے میں ایک قبیلے کے چند افراد کو طاقتور اور قابل لحاظ سمجھتے ہو۔ لیکن جس ذات کے قبضے میں ان کی جان ہے، اس سے بے پرواہی برتتے اور اسے پس پشت ڈالتے ہو اور چند بے بس انسانوں سے خوفزدہ ہوتے ہو۔

وَ یٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ اِنِّیۡ عَامِلٌ ؕ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخۡزِیۡہِ وَ مَنۡ ہُوَ کَاذِبٌ ؕ وَ ارۡتَقِبُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ رَقِیۡبٌ﴿۹۳﴾

۹۳۔ اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرتے جاؤ میں بھی عمل کرتا جاؤں گا، عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ رسواکن عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے، پس تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔

93۔ حضرت شعیب علیہ السلام ملکوتی طاقت کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو طاقتور اور حضرت شعیب علیہ السلام کو کمزور خیال کر رہے تھے ان سے فرمایا: اگر تم کوئی طاقت رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو۔

وَ لَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّیۡنَا شُعَیۡبًا وَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوا الصَّیۡحَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دِیَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ ﴿ۙ۹۴﴾

۹۴۔ اور جب ہمارا فیصلہ آگیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے نجات دی اور ظالموں کو ہولناک چیخ نے آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّمَدۡیَنَ کَمَا بَعِدَتۡ ثَمُوۡدُ﴿٪۹۵﴾

۹۵۔ گویا کہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے، آگاہ رہو! قوم مدین (رحمت حق سے) اس طرح دور ہو جس طرح قوم ثمود دور ہوئی۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۶﴾

۹۶۔ اور بتحقیق موسیٰ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔

اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَاتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ فِرۡعَوۡنَ ۚ وَ مَاۤ اَمۡرُ فِرۡعَوۡنَ بِرَشِیۡدٍ﴿۹۷﴾

۹۷۔ فرعون اور ان کے درباریوں کی طرف، پھر بھی انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی، جب کہ فرعون کا حکم عقل کے مطابق نہ تھا۔

یَقۡدُمُ قَوۡمَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَاَوۡرَدَہُمُ النَّارَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ﴿۹۸﴾

۹۸۔ قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے ہو گا اور انہیں جہنم تک پہنچا دے گا، کتنی بری جگہ ہے جہاں یہ وارد کیے جائیں گے۔

وَ اُتۡبِعُوۡا فِیۡ ہٰذِہٖ لَعۡنَۃً وَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ بِئۡسَ الرِّفۡدُ الۡمَرۡفُوۡدُ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے تعاقب میں ہے اور قیامت کے دن بھی، کتنا برا صلہ ہے یہ جو (کسی کے) حصے میں آئے۔

98۔ 99 اس آیت اور دیگر آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں لوگوں کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں وہی قیامت کے دن انہیں جہنم کی طرف لے جانے میں آگے آگے ہوں گے۔

اورد یعنی ان کو پانی کے گھاٹ پر اتارا۔ جیسے کہ چرواہا جانوروں کو پانی کے گھاٹ کی طرف لے جاتا ہے، یہ کافر بھی جانوروں کی طرح بلا سوچے سمجھے ان گمراہوں کے پیچھے چلتے رہے۔ کل قیامت کے روز جب ان کے پیرو ان کے پیچھے جہنم کی طرف جا رہے ہوں گے تو ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتے جا رہے ہوں گے۔ لعنتوں کا یہ صلہ کتنا برا صلہ ہو گا۔

اس آیہ شریفہ میں عذاب جہنم کو پانی کے گھاٹ اور عذاب کو عطیے اور صلے کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ انسان کو اپنی تشنگی رفع کرنے کے لیے پانی اور ثواب و صلہ کی طرف جانا چاہیے تھا، لیکن فرعون جیسے رہنما ان کو پانی کی بجائے جہنم اور صلہ و عطیہ کی جگہ عذاب کی طرف لے جاتے ہیں۔

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیۡکَ مِنۡہَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیۡدٌ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ یہ ہیں ان بستیوں کے حالات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں، ان میں سے بعض کھڑی ہیں اور بعض کی جڑیں کٹ چکی ہیں۔

100۔ بعض بستیاں جن پر ہلاکت آگئی ان کے آثار نزول وحی کے زمانے تک، بلکہ بعض تو آج تک موجود ہیں۔ جیسے عاد اور ثمود کی بستیوں کے آثار اب تک موجود ہیں۔

ان کی ہلاکت کی وجہ غیر اللہ سے ان کی وابستگی تھی۔ جب عذاب کا وقت آیا تو انہیں بچانے والا کوئی نہ تھا۔ جنہیں وہ پکارتے تھے وہی ان کی ہلاکت کا سبب بن گئے تو انہیں کون بچائے؟