آیات 100 - 101
 

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیۡکَ مِنۡہَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیۡدٌ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ یہ ہیں ان بستیوں کے حالات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں، ان میں سے بعض کھڑی ہیں اور بعض کی جڑیں کٹ چکی ہیں۔

وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیۡ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، پس جب آپ کے رب کا حکم آگیا تو اللہ کے سوا جن معبودوں کو وہ پکارتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہوں نے تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔

تشریح کلمات

تَتۡبِیۡبٍ:

( ت ب ب ) التب و التباب کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡقُرٰی: بعض بستیاں جن پر ہلاکت نازل ہو گئی تھی، ان کے آثار نزول وحی کے زمانے تک بلکہ بعض کے تو آج تک موجود ہیں۔ جیسے عاد اور ثمود کی بستیوں کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان آثار کے بارے میں فرمایا:

وَ اِنَّکُمۡ لَتَمُرُّوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مُّصۡبِحِیۡنَ﴿﴾ وَ بِالَّیۡلِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿﴾ (۳۷ صافات: ۱۳۷۔ ۱۳۸)

اور تم دن کو بھی ان (بستیوں )سے گزرتے رہتے ہو اور رات کو بھی، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

۲۔ وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ: ان بستیوں کی ہلاکت کسی قسم کی ظلم و زیادتی کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ خود ان میں بسنے والوں کے اعمال بد کا ایک طبعی نتیجہ تھی۔

۳۔ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ: وہ یہ تھے کہ وہ غیر اللہ سے اپنی ساری توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ جب عذاب نازل ہوا تو جن کے ساتھ ان کی توقعات وابستہ تھیں وہ نہ صرف ان کے کام نہ آئے بلکہ ان کی وجہ سے ہلاکت و بربادی میں اضافہ ہوا۔

اہم نکات

۱۔ قوموں کے انحطاط کے علل و اسباب کا مطالعہ کرنا چاہیے: ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡقُرٰی ۔۔۔۔

۲۔ ظلم، انحطاط کے عوامل میں سے ایک ہے: وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ۔۔۔۔


آیات 100 - 101