بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے: ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے۔

116۔117 آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اللہ کی تخلیق کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی، لہٰذا جس وجود کو اللہ کا بیٹا فرض کرو گے وہ اللہ کی مخلوق ہو سکتا ہے بیٹا نہیں۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے ”ہو جا“ سو وہ ہو جاتی ہے۔

یہاں مادہ پرستوں کا ایک فرسودہ اعتراض ہے کہ عدم، وجود کا منبع کیسے ہو سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ عدم کسی چیزکو وجود نہیں دے سکتا، نیستی، ہستی کے لیے بنیاد نہیں بن سکتی۔ ”عدم سے“ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدم وجود کے لیے خام مال کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مادے کو وجود دینے والا خود مادے سے، بلکہ زمان و مکان سے بھی ماوراء ہے۔ ایک لا محدود ذات مادے کی موجد ہے۔ کیونکہ حد، مادے کا حصہ ہے۔ کُنۡ ارادہ ٔالٰہی کی تعبیر ہے، ورنہ خداوند عالم خلق و ایجاد کے لیے کاف و نون کا محتاج نہیں ہے کہ کن کا مخاطب تلاش کرے۔