آیت 118
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اور بے علم لوگ کہتے ہیں: اللہ ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کر چکے ہیں، ان کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں۔

تفسیر آیات

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ بے علم لوگ (مشرکین عرب) حضرت محمد مصطفی (ص) کی نبوت کو اپنے خود ساختہ معیار پر جانچتے تھے اور اسے بشری فہم کے مطابق قابل قبول نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے مادی و جاہلی معیار کے مطابق خود ان میں سے کچھ بلند پایہ شخصیات اس منصب کے لیے موزوں تھیں اور ان کے زعم باطل میں یہ مقام انہیں ملنا چاہیے تھا اور اللہ کو ان سے ہمکلام ہونا چاہیے تھا:

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ {۴۳ زخرف: ۳۱}

اور کہتے ہیں: یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا؟

قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ یعنی اس قسم کے مطالبے سابقہ امتوں نے بھی اپنے رسولوں سے کیے اور بہت سے مطالبے قبول ہونے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔ ان کے دل ایک جیسے، افکار ہم آہنگ اور سوچیں یکساں ہیں: اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ ۔

قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ہم نے ایک نہیں بلکہ متعدد نشانیاں بڑی وضاحت سے بیان کی ہیں۔ رسول کریم (ص) کا ہر عمل اور ہر حکم معجزہ ہے اور ان کی سیرت و کردار کا ہر حصہ اللہ کی نشانی ہے۔ اس کے علاوہ رسول کریم (ص) کے ہاتھوں بے شمار معجزات صادر ہوتے رہے ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے چشم بینا اور سمجھنے کے لیے عقل و ہوش کی ضرورت ہے۔

اہم نکات

۱۔ خداسے ہمکلام ہونے کامطالبہ جہل و نادانی کی علامت ہے۔

۲۔ انسان کا قول و عمل اس کے عقیدے اور نظریے کا آئینہ دارہے۔

۳۔ خدا کی نشانیوں سے اہل یقین ہی مستفیض ہوتے ہیں۔


آیت 118