آیت 119
 

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ وَّ لَا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں کوئی پرسش نہیں ہو گی۔

تشریح کلمات

بَشِیۡرًا:

(ب ش ر) بشارت دینے والا۔ یہ بشرۃ سے ماخوذ ہے جو انسانی جلد کی اوپر کی سطح کا نام ہے۔ خوش کن خبر سن کر انسانی چہرے کی جلد میں انبساط آ جاتا ہے۔ اسی لیے اسے بشارت کہا جاتا ہے۔ بشارت دینے والے کو بشیر کہتے ہیں۔

الۡجَحِیۡمِ:

دوزخ کی بھڑکتی آگ۔

تفسیر آیات

اے رسول (ص)! ناخواندہ اور بے علم لوگوں کے تصورات اور خود ساختہ معیاروں کے برعکس ہم نے آپ(ص) کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے۔ خدائی معیار کے مطابق یہ منصب آپ (ص) ہی کے لیے سزاوار ہے۔ آپ (ص) پوری انسانیت کے ہادی ہیں۔ ان میں سے جو مومن ہوں گے ان کے لیے آپ بشیر ہیں، حیات و سعادت کی نوید سنانے والے ہیں اور منکر ین کے لیے ابدی ہلاکت کی خبر دینے والے نذیر ہیں۔

وَّ نَذِیۡرًا ۙ وَّ لَا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِیۡمِ جو آپ کی دعوت کے منکر ہیں اور حجت پوری ہونے اور واضح نشانیاں اور معجزے دیکھنے کے باوجود راہ راست پر نہیں آتے اور جنت پر دوزخ کو ترجیح دیتے ہیں، جہنم کے ایسے شیدائیوں کے آپ (ص) ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ آپ (ص) نے حق رسالت ادا کر دیا ہے اور اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کی ہے۔

اہم نکات

۱۔ تَبْشِیْر اور اِنْذَار ( تبلیغ دین ) خدا کے نزدیک عظیم ترین منصب ہے۔

۲۔ رسول(ص) کا کام حق و باطل کی صحیح نشاندہی کرنا ہے نہ کہ ایمان لانے پر مجبور کرنا۔

۳۔ تبلیغ و تربیت کے عمل میں تشویق و تنبیہ دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔


آیت 119