آیت 114
 

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے؟ ان لوگوں کو مساجد میں داخل ہونے کا حق نہیں مگر خوف کے ساتھ، ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

تشریح کلمات

مَسٰجِدَ:

( س ج د ) جائے سجدہ۔ سجدے سے نماز مراد لی جاتی ہے۔ اس لیے مسجد جائے نماز کے معنوں میں ہے۔ مسجد سے مراد روئے زمین بھی ہے۔

خِزۡیٌ:

( خ ز ی ) ذلت و رسوائی۔

عَذَابٌ:

( ع ذ ب ) سخت اذیت دینا۔ یہ لفظ بعض کے نزدیک عذب سے ماخوذ ہے۔ یعنی شیریں۔ ماء عذب آب شیریں ۔ بنابریں عذاب کا مطلب ہو گا کہ کسی کو زندگی کی شیرینی سے محروم کرنا۔

تفسیر آیات

اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو عبد اور معبود کے درمیان حائل ہو جائے اور بندگان خدا کو ان کے فطری حق سے محروم کر دے، ذکر خدا پر پابندی لگا دے اور اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ کو تباہ کرکے خدا سے دشمنی کا اظہار کرے۔

اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ایسے تخریب کاروں سے نپٹنے کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو مساجد کی حفاظت کی خاطر ایسے انتظامات کی ضرورت ہے، جن کے باعث یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بلا خوف خطر مساجد میں داخل ہونے کی جرأت نہ کر سکیں۔

لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ اللہ کے گھر کے ساتھ ناپاک جسارت کرنے والوں کو دنیا میں بھی ذلت و رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب عظیم ہو گا۔

مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

مساجد کے احترام کے اسی اصول کے تحت مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ جنگ کی حالت میں بھی ان کے گرجوں اور معابد کے ہدم یا ان کی توہین کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ مقام ان مسلمانوں کے لیے قابل غور ہے جو محض گروہی تعصبات کے تحت اپنے سے ذرا مختلف مسلک رکھنے والوں کو اپنی مساجد سے روکتے ہیں اور بعض اوقات دوسرا مسلک رکھنے والوں کی مساجد کی بے حرمتی کرنے کی جسارت بھی کر گزرتے ہیں۔ {جیسا کہ کراچی، لاہور اور ۱۹۸۸ء میں صوبہ سرحد کے بعض علاقوں سے آنے والے مسلمانوں نے گلگت میں شیعہ امامیہ کی مساجد کو نہ صرف منہدم بلکہ نذر آتش بھی کیا اور ان میں موجود قرآنی نسخوں کو جلا دیا}

شان نزول

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:جب قریش نے رسول خدا (ص) کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا تو یہ آیت نازل ہوئی تھی۔

اہم نکات

۱۔ بندگان خدا کو ان کے فطری حق سے محروم کرنا، ذکر خداپر پابندی لگانا اور عبادت گاہوں کو منہدم کرنا بہت بڑا ظلم، خدا سے دشمنی اور مذہبی دہشت گردی ہے۔

۲۔ تخریب کاری کا سد باب ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔

۳۔ تخریب کاروں کا قرآنی علاج یہ ہے کہ طاقت کا مظاہر ہ کر کے انہیں خوفزدہ کیا جائے۔

۴۔ تخریب کار دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا ہوں گے۔


آیت 114