وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ نَبَذَ فَرِیۡقٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ ٭ۙ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ کَاَنَّہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۱﴾۫

۱۰۱۔اور جب اللہ کی جانب سے ان کے پاس ایک ایسا رسول آیا جو ان کے ہاں موجود (کتاب)کی تصدیق کرتا ہے تو اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا گویا کہ اسے جانتے ہی نہیں۔

101۔ یہود و نصاریٰ کو بحیثیت قوم کتاب دی گئی، ورنہ نزول قرآن کے معاصر یہود و نصاریٰ کے پاس توریت و انجیل کا کامل نسخہ موجود نہیں تھا، تاہم اصل توریت و انجیل کا ایک حصہ تحریف شدہ توریت و انجیل میں جا بجا پایا جاتا ہے۔

وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔اور سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین جو کچھ پڑھا کرتے تھے یہ (یہودی) اس کی پیروی کرنے لگ گئے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے اور وہ اس (علم) کی بھی پیروی کرنے لگے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا، حالانکہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے خبردار نہ کر لیں کہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کر لینا، مگر لوگ ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ لوگ اس چیز کو سیکھتے تھے جو ان کے لیے ضرر رساں ہو اور فائدہ مند نہ ہو اور بتحقیق انہیں علم ہے کہ جس نے یہ سودا کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کاش وہ جان لیتے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کا بہت برا سودا کیا ہے۔

102۔ سُلَیۡمٰنَ عبرانی لفظ ہے۔ سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے چار فرزندوں میں سے ایک ہیں جو غالباً 990 ق م مبعوث برسالت ہوئے۔

بابل قدیم مملکت عراق کا دار الحکومت تھا۔ یہاں کلدانی قوم آباد تھی۔ خیال ہے کہ ان کی سلطنت 3000 ق م میں موجود تھی۔ بابل جہاں تہذیب و تمدن کا مرکز تھا وہاں جادو کا مرکز بھی تھا۔ دنیا میں خرافات کی ابتداء یہیں سے ہوئی۔ احادیث کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں جادو کا عمل عام ہونے لگا تو آپ علیہ السلام نے ان تمام اوراق و اسناد کو ضبط کر لیا جن پر جادو تحریر تھا۔ آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد کچھ افراد ان تحریروں کو منظر عام پر لے آئے۔ اس طرح یہودی، وحی الٰہی کی اتباع کی بجائے سفلی علوم کے شیدائی بن گئے، یہودیوں کے ایک فرقے نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سلیمان علیہ السلام پیغمبر نہیں تھے بلکہ انہوں نے جادو کے ذریعے جن و انس کو مسخر کر لیا تھا۔ اس زعم باطل کے جواب میں فرمایا: وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ

ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کے غیر عربی نام ہیں جنہیں ابطال سحر کے لیے انسانی صورت میں بابل بھیجا گیا تھا تاکہ لوگوں میں جادو اور معجزے کا فرق واضح کرنے کے لیے جادو کے مخفی اسباب کو برملا کریں۔ یہودیوں نے یہاں بھی سوء استفادہ کیا اور ان اسباب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۳﴾٪

۱۰۳۔ اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے پاس اس کا ثواب کہیں بہتر ہوتا، کاش وہ سمجھ لیتے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) انظرنا کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔

104۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : قرآن مجید میں تقریباً اسی (80) مقامات پر ان الفاظ میں مومنین سے خطاب کیا گیا ہے۔ یہ سب آیات مدنی ہیں۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خطاب کا یہ انداز اس امت کے لیے ایک اعزاز ہے، ورنہ دوسری امتوں کو قرآن نے لفظ قوم سے یاد کیا ہے۔ جیسے قوم نوح، قوم ہود اور قوم عاد وغیرہ۔

ابو نعیم نے الحلیہ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ اٰیَۃً و فِیْھَا یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِلّٰا وَ عَلِیٌّ رَاْسُہَا و اَمِیْرُھَا ۔ یعنی خدا نے يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے ساتھ جو بھی آیت نازل کی ہے حضرت علی علیہ السلام اس کے سردار اور امیر ہیں۔

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب اسلامی احکام بیان فرماتے تو اکثر ایسا ہوتا کہ بعض افراد سن یا سمجھ نہیں پاتے تھے۔ اس وقت وہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کہتے: رَاعِنَا یعنی ہماری رعایت فرمائیں کہ ہم سمجھ نہیں سکے۔ ہمارا لحاظ فرمائیے اور دوبارہ ارشاد فرمائیے۔

بعض یہودی بھی ان علمی مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ وہ اس لفظ کو شرارتاً حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں توہین کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک وہ رَاعِنَا کو اَلرَّعُوْنَۃُ کے حوالے سے احمق اور بے وقوف کے معنوں میں لیتے تھے اور بعض دیگر مفسرین کے مطابق وہ رَاعِنَا کی بجائے رَاعِیْنَا ”ہمارا چرواہا“ کہتے۔

مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ لَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ کفر اختیار کرنے والے خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اس بات کو پسند ہی نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت نازل کرتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ؟

106۔ آسمانی شریعتوں میں احکام کی منسوخی ایک مسلمہ امر ہے۔ اسلامی شریعت کے احکام میں بھی نسخ واقع ہوا ہے۔ کیونکہ یہ شریعت انسانی تربیت و ارتقاء کے لیے ہے اور تربیت کا مطلب ہی تدریجی ارتقاء ہے۔ اس لیے احکام میں رد و بدل ایک طبعی امر ہے۔

نسخ احکام پر یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: میں جس حکم کو منسوخ کرتا ہوں اس کی جگہ اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسا حکم لاتا ہوں۔ حالانکہ خود یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی شریعت سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہے۔ خود توریت میں بہت سے احکام منسوخ ہوئے ہیں۔ مثلاً سفر تکوین باب 22 میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے اپنے فرزند کے ذبح کا حکم منسوخ ہو گیا۔ واضح رہے کہ جو اعتراض یہود نسخ احکام پر کرتے ہیں وہی اعتراض بداء پر کیا جاتا ہے۔ جب کہ نسخ اور بداء ایک چیز ہے۔ فرق یہ ہے کہ نسخ احکام میں اور بداء تکوین میں ہوتا ہے۔

اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔کیا تو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ ہی کے لیے ہے؟ اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز اور مددگار نہیں ہے۔

اَمۡ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَسۡـَٔلُوۡا رَسُوۡلَکُمۡ کَمَا سُئِلَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَبَدَّلِ الۡکُفۡرَ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ کیا تم لوگ اپنے رسول سے ایسا ہی سوال کرنا چاہتے ہو جیسا کہ اس سے قبل موسیٰ سے کیا گیا تھا؟ اور جو ایمان کو کفر سے بدل دے وہ حتماً سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔

108۔ سوال اگر بغرض تعلیم ہو تو نہایت مستحسن ہے، لیکن اگر بغرض استہزاء ہو تو یہ کفر کے نزدیک ہے۔ قوم موسیٰ کے مطالبے کافرانہ اس لیے تھے کہ وہ ایمان بالغیب کی جگہ ایمان بالمحسوسات کے خواہاں تھے۔ بالفاظ دیگر یہ محسوس پرستی، بت پرستی اور ایمان کی جگہ کفر اختیار کرنا ہے۔

وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَوۡ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِکُمۡ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡحَقُّ ۚ فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۹﴾ ۞ؓ

۱۰۹۔ (مسلمانو!) اکثر اہل کتاب حق واضح ہو جانے کے باوجود (محض) اپنے بغض اور حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ایمان کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنا دیں، پس آپ درگزر کریں اور نظر انداز کر دیں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

109۔ چونکہ دل میں زوال نعمت کی آرزو رکھنا حسد کہلاتا ہے، بنا بریں اس آیت سے پتہ چلا کہ اہل کتاب، اسلام کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔ وہ دل سے اس کی حقانیت کے معترف ہیں کیونکہ اسلام اگر حق نہ ہوتا تو نعمت نہ سمجھا جاتا اور اس سے حسد کوئی معنی نہ رکھتا۔

یہ فیصلہ بعد میں آنے والے کسی حکم کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ آیہ قتال میں حکم آ گیا۔

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جو کچھ نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس موجود پاؤ گے، تم جو بھی عمل انجام دیتے ہو اللہ یقینا اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔

110۔ ممکن ہے کہ تَجِدُوۡہُ موجود پاؤ گے، کا مطلب یہ ہو کہ خود عمل کو موجود پاؤ گے، یعنی قیامت کے روز انسان اپنے اعمال کا خود مشاہدہ کرے گا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا (18 : 49) اور انہوں نے جو کچھ کیا تھا اسے حاضر پائیں گے۔