آیت 112
 

بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٪

۱۱۲۔ ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن۔

تشریح کلمات

بَلٰی:

اثبات میں جواب دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ {۷ اعراف : ۱۷۲} "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" کے جواب میں قَالُوۡا بَلٰی {۷ اعراف : ۱۷۲} "وہ بولے ہاں!"۔ یہ لفظ انکاری جواب کے لیے بھی آتا ہے۔

اَسۡلَمَ:

( س ل م ) سر تسلیم خم ہو گیا۔ سپرد کر دیا۔ مطیع و فرمانبردار ہو گیا۔

وَجۡہَہٗ :

( و ج ہ ) چہرہ۔ چونکہ چہرہ انسانی جسم میں سب سے زیادہ نمایاں اور اہم عضو ہے اور انسان چہرے ہی سے پہچانا جاتا ہے اس لیے لفظ وَجْہ سے صرف چہرہ نہیں بلکہ پوری ذات مراد لی جاتی ہے۔ ابرو کو بھی وَجْہ کہتے ہیں۔ کسی امر کی علت کو بھی وَجْہ کہتے ہیں۔ کسی مفہوم کو درست طریقے سے بیان کرنا بھی توجیہ کہلا تا ہے۔

اَجۡر:

جزائے عمل اور بدلہ۔ اگر یہ دنیاوی ہو تو اجرت اور اخروی ہو تو اَجْر کہا جاتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ محنت و مشقت کے معاوضے کو اس لئے اَجۡر کہتے ہیں کہ اس سے محنت و مشقت کی تکلیف کا جبران اور مداوا ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

دخول جنت اور سعادت ابدی کی امید وہ شخص رکھ سکتا ہے، جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا ہو نیز جو خلوص کے ساتھ نیکی کرنے والا، پاک باطن، صالح، مخلص، محسن اور مومن ہو، اس کا دل تسلیم و رضا سے سرشار اور لبریز ہو۔

فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ایسے شخص کااجر و ثواب اس کے رب کے پاس ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو نہ تو کوئی خوف ہو گا نہ غم۔ خوف و غم کا نہ ہونا سعادت و خوشحالی کے دو اہم بنیادی اصول ہیں، جب کہ خوف و غم کی موجودگی، بدبختی اور تکلیف دہ زندگی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ دخول جنت اور سعادت ابدی کا حقدار وہ ہے جو مومن، مخلص، صالح، محسن اور تسلیم و رضا کا پیکر ہو۔

۲۔ خوف کا ہونا عذاب و بدبختی اور نہ ہونا سعادت و خوش بختی ہے۔


آیت 112