الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَہۡوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ۚ فَالۡیَوۡمَ نَنۡسٰہُمۡ کَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ یَوۡمِہِمۡ ہٰذَا ۙ وَ مَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا دیا تھا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالا تھا، پس آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اور ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔

51۔اس آیت میں کافروں کے لیے جنت کی نعمتوں کے حرام ہونے کے چند اسباب کا ذکر ہے: ٭ان کا دین کو کھیل اور بے مقصد و لغو کاموں کی طرح بنا لینا۔ ٭ اپنی ساری توجہ دنیا کی چند روزہ زندگی پر مرکوز کر لینا۔ ٭ اپنے ذہنوں میں درگاہ الہی میں حاضر ہونے کا خیال تک نہ لانا۔ ٭آیات الہی کا تمسخر اڑانا اور ان کا انکار کرنا۔

وَ لَقَدۡ جِئۡنٰہُمۡ بِکِتٰبٍ فَصَّلۡنٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔اور ہم ان کے پاس یقینا ایک کتاب لا چکے ہیں جسے ہم نے از روئے علم واضح بنایا ہے جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

52۔ یہ قرآن ایک ایسا دستور پیش کرتا ہے جسے اس ذات نے ترتیب دیا ہے جو دانائے راز ہے، انسان کی ضرورتوں اور اس کے تمام تقاضوں پر علم و آگہی رکھتی ہے۔ یہ دستور مفصل ہے۔ تفصیل سے مراد یہ ہے کہ حق کو باطل اور امر واقع و حقیقت کو خرافات سے جدا کرنے والی کتاب ہے۔ تفصیل سے مراد یہ نہیں کہ اس کتاب میں تمام جزئیات کو بیان کیا گیا ہے۔

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِیۡلَہٗ ؕ یَوۡمَ یَاۡتِیۡ تَاۡوِیۡلُہٗ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ نَسُوۡہُ مِنۡ قَبۡلُ قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ۚ فَہَلۡ لَّنَا مِنۡ شُفَعَآءَ فَیَشۡفَعُوۡا لَنَاۤ اَوۡ نُرَدُّ فَنَعۡمَلَ غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ قَدۡ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿٪۵۳﴾

۵۳۔کیا یہ لوگ صرف اس (کتاب کی تنبیہوں) کے انجام کار کے منتظر ہیں؟ جس روز وہ انجام کار سامنے آئے گا جو لوگ اس سے پہلے اسے بھولے ہوئے تھے وہ کہیں گے: ہمارے رب کے پیغمبر حق لے کر آئے تھے کیا ہمارے لیے کچھ سفارشی ہیں جو ہماری شفاعت کریں یا ہمیں (دنیا میں) واپس کر دیا جائے تاکہ جو عمل (بد) ہم کرتے تھے اس کا غیر(عمل صالح) بجا لائیں؟ یقینا انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور جو جھوٹ وہ گھڑتے رہتے تھے وہ ان سے ناپید ہو گئے۔

53۔ تاویل وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد احکام و اعمال کا مدار ہے۔ یعنی وہ راز و حکمت جس کی بنا پر احکام صادر ہوتے ہیں اور تمام احکام کا مآل و مرجع وہی نقطۂ نظر ہوتا ہے۔

قرآن جس دستور و نظام کو متعارف کرا رہا ہے اس کے راز و حکمت کو دنیا میں لوگ نہیں مانتے تھے اور اس کی تکذیب کرتے تھے، جب بروز قیامت وہ حقیقت منکشف ہو کر سامنے آجاتی ہے تو تسلیم کر لیتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے کیے کی سزا پاتے ہیں تو مانتے ہیں۔ یہاں وہ دو چیزوں میں سے ایک کی خواہش کریں گے۔ ایک یہ کہ دنیا میں پھر بھیج دیے جائیں اور ایک موقع اور دیا جائے تاکہ وہ اپنے اعمال کو درست کریں یا یہ کہ ان کے لیے کوئی شفاعت کرنے والا مل جائے۔

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ تمہارا رب یقینا وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

54۔ قرآن مجید میں سات مقامات پر اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں خلق فرمایا ہے۔یوم سے مراد ہمارے ارضی دن نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ہمارے نظام شمسی کے وجود سے پہلے کا ذکر ہے، بلکہ خود زمانے کے وجود میں آنے سے پہلے کا ذکر ہے۔

اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر چیز کا یوم اس کے حساب سے ہوتا ہے۔ حکومتوں کے عروج و زوال کے ادوار اور امتوں کے زوال و عروج کو یوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا خدائی ایام کا اندازہ ہم اپنے محدود پیمانوں سے نہیں کر سکتے، بلکہ ہم تو رسالتی ایام کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ معراج کے موقع پر حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے زمانے کے چند لمحوں میں پورے ملکوت سماوی کی سیر فرما کر واپس آ گئے۔

اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ : خلق و امر دونوں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ خلق ایک تدریجی عمل ہے جیسا کہ چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کی خلقت عمل میں آئی اور امر فوری عمل کا نام ہے۔ وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ (قمر: 50) اور ہمارا امر تو ایک ہی ہوتا ہے آنکھ کے جھپکنے کی طرح۔

اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

۵۵۔ اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

55۔ یہاں انسان کے دو روابط کا ذکر ہے۔ ایک اس کا رابطہ اپنے رب سے اور دوسرا بندوں سے۔ رب کے ساتھ رابطہ عبودیت و بندگی کا ہونا چاہیے۔ بندگی کے آداب یہ ہیں :

1۔ جو کچھ مانگنا ہے اس کی بارگاہ سے مانگا جائے۔ اللہ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ بندے اس سے مانگیں اور مانگنے کے آداب یہ بتلائے ہیں کہ عاجزی کے ساتھ ہو اور نہایت دھیمی آواز میں ہو کیونکہ چیخ کر مانگنا ادب کے منافی ہے۔

2۔ کسی کی طرف رجوع کرنے کے عام طور پر دو عوامل ہوتے ہیں: خوف اور امید۔ اللہ سے مانگنے اور اس کو پکارنے میں یہ دو عوامل کارفرما ہونے چاہییں۔ یعنی خوف صرف اللہ کا ہو اور امیدیں بھی صرف اسی سے وابستہ ہوں۔

بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرے میں ہونی چاہیے۔

وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابر گراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

57۔ خدائی مؤقف کے مطابق مردہ زمین اور بے جان مادے میں حیات کا پیدا ہونا اللہ کی نشانی اور خالق کے وجود کی علامت ہے نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو پہلی بار خلق کر سکتا ہے وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔

وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ﴿٪۵۸﴾

۵۸۔ اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔

58۔ زمین کی استعداد اور قابلیت کے اختلاف سے کوئی زمین پر فیض یعنی سر سبز و شاداب ہوتی ہے اور کوئی زمین روئیدگی کے قابل ہی نہیں ہوتی جب کہ باد و باران یکساں طور پر ان پر فیض کرتے ہیں۔ اسی طرح نیک باطن انسان خدائی رحمت و ہدایت کو فوراً قبول کر لیتا ہے اور خبیث انسان شوریدہ زمین کی مانند نہ صرف یہ کہ رحمتوں کو قبول نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر کی خبائث ابھر کر پورے ماحول کو آلودہ کر دیتی ہیں۔

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۵۹﴾

۵۹۔ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، مجھے تمہارے بارے میں ایک عظیم دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

59۔ یہ انبیاء علیہم السلام میں قدیم ترین اور توحید کے بارے میں طویل ترین جہاد کرنے والے نبی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ آپ پہلے صاحب شریعت رسول ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کے بعد دوسرے ابو البشر ہیں۔ آپ علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی دسویں پشت میں آتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا مسکن موجودہ عراق کے بالائی علاقے تھا۔ آپ علیہ السلام نے نو سو پچاس سال تبلیغ فرمائی۔ آپ علیہ السلام کی دعوت، توحید اور تصور آخرت پر مشتمل تھی۔ کیونکہ قومِ نوح، اللہ کی منکر نہ تھی بلکہ وہ شرک کا ارتکاب کرتی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان فطرتاً خدا پرست ہے اور انبیاء علیہ السلام نے شرک جیسے انحراف کا مقابلہ کیا ہے۔

قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶۰﴾

۶۰۔ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا :ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔