آیات 55 - 56
 

اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

۵۵۔ اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔

تفسیر آیات

یہاں انسان کے دو روابط کا ذکر ہے: ایک اس کا رابطہ اپنے رب سے اور دوسرا بندوں سے۔ رب کے ساتھ روابط عبودیت و بندگی کے ہونے چاہئیں۔ بندگی کے آداب یہ ہیں :

اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ: جو کچھ مانگنا ہے اس کی بارگاہ سے مانگا جائے۔ اللہ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ بندے اس سے مانگیں۔ اللہ سے مانگنا ہی عبادت کی روح ہے:

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۔۔۔۔ ( ۲۵ فرقان: ۷۷)

کہدیجیے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا۔

ii۔ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً: مانگنے کے مزید آداب یہ بتلائے ہیں کہ عاجزی کے ساتھ ہو اور نہایت دھیمی آواز میں ہو کیونکہ چیخ کر مانگنا ادب کے منافی ہے۔ اس ادا میں اس بات کا ادراک بھی مضمر ہے کہ وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

iii۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ: بندگی کے جو آداب بیان ہوئے ہیں، ان کا لحاظ نہ رکھنا، آداب و حدود بندگی سے تجاوز شمار ہوتا ہے۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ: تجاوز کار کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ بندگی کے لیے ضروری ہے، وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جس کو اللہ دوست رکھتا ہے۔

iv۔ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ: اس جملے میں بندوں سے ربط و تعلقات کا ذکر ہے۔ بندگی صرف دعا و گریہ زاری اور محراب عبادت میں وقت گزارنے سے عبارت نہیں ہے۔ بندگی کے کچھ دیگر تقاضے ہوتے ہیں، جن کا تعلق بندوں سے ہے۔ ان دونوں کو یکساں اہمیت دینے کا نام بندگی ہے۔ جہاں دعائیں کرو، وہاں اصلاحی عمل میں پیش پیش رہو۔ بندوں سے ربط و تعلق کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرے میں ہونی چاہیے کہ اللہ نے انسانوں کو جن فطری تقاضوں کے مطابق بنایا اور انہی فطری تقاضوں کے مطابق قانون بنایا ان کو سبوتاژ کر کے زمین پر فساد نہ پھیلاؤ۔

وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا: کسی کی طرف رجوع کرنے کے عام طور پر دو عوامل ہوتے ہیں: خوف اور امید۔ اللہ سے مانگنے اور اس کو پکارنے میں یہ دو عوامل کارفرما ہونے چاہئیں۔ یعنی خوف صرف اللہ کا ہو اور امیدیں بھی صرف اسی سے وابستہ ہوں۔

vi۔ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ: اپنے روابط اللہ اور بندوں کے ساتھ درست رکھنے والے ہی محسنین (نیکی کرنے والے) ہوتے ہیں۔ رحمۃ اللہ قریبۃ نہیں فرمایا۔ چونکہ رحمۃ مصدر ہے۔ اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ۔۔۔۔ (۴۲ شوری:۱۷) بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرہ میں ہونی چاہیے کہ اللہ نے جن فطری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو بنایا اور انہی فطری تقاضوں کے مطابق قانون بنایا۔ ان کو سبوتاژ کر کے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔

اہم نکات

۱۔ رب کی بندگی سے آزاد ہو تو انسان مفسد و تجاوز کار بن جاتاہے۔

۲۔ بندگی خود بینی و مایوسی سے نہیں، خوف و رجاء کے دائرے میں ہوتی ہے: خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۔۔۔۔


آیات 55 - 56